کیا کاکازئی “ملک” ہیں یا “کاکازئی ملک” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کاکازئی “ملک” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی ملک” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

مَلک: یہ لفظ عربی زبان کا ہے ۔عربی، پشتو اور اُردو میں  اس کے معنی بزرگ، سَردار،بادشاہ، سلطان، فرمانروا، شہریاریا  ایک خطاب جو اکثر مسلمان قوموں میں رائج کے ہیں۔

  انگریزوں نے مَلِک (پشتو میں جمع: ملکان یا ملکانان /اُردو میں جمع: ملوک)  کا لقب ، جیسے خان بہادُر،  دیوان بہادُر، رائے/راؤ بہادُر، رائے /راؤ صاحب  وغیرہ ،بمع مراعات  ،پختونوں میں اُن لوگوں کو دیا  جن لوگوں نے برِّصغیر پاک وہند میں ان کا استعمار قائم رکھنےمیں ان کی مدد و اعانت کی ۔ پختون قبائل کے گاؤں کے بڑے کو ، یا جرگہ کے بزرگ کو بھی مَلِک کہا جاتا ہے۔

 کئی دُوسری قومیں بھی، مثلاًاعوان، ہندو جاٹ، سکھ جاٹ، گجراتی، تیلی  وغیرہ، مَلِک کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کرتی ہیں۔

ککے یا کاکازئی  ملک ، پختونوں میں ایک علیحدہ قوم یا قبیلہ نہیں ہے۔ اور نہ  ہی ا س کا   تعلّق پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ ہے۔

اب آپ خُود منطقی طور پرسوچیں کہ ایک خاندان میں، ایک برادری میں ،ایک قبیلے میں، ایک جرگے میں، ایک گاؤں میں، ایک شہرمیں، ایک مُلک وغیرہ میں آخر کتنے  مَلِک ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کو ایک طرف پختون، یعنی کاکازئی، کہتا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ  ملک ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مَلِک بھی ہو اور پختون بھی، خصوصاً جب اُس کے آس پاس   نہ صرف اسکی اپنی برادری کے لوگ بلکہ، دُوسری قوموں کے لوگ بھی، مثلاًاعوان، ہندو جاٹ، سکھ جاٹ، گجراتی، تیلی  وغیرہ، “مَلک” کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کررہے ہوں۔اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “ملک” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔