© تحریر: علؔی خان
یہ پشتونوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس خوبصورت دُنیا کے جس حصّے میں رہتے ہیں وہ نہ صرف برِّ اعظم ایشیاء کے دل کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ شاہراہِ ریشم کے ساتھ سلطنتوں کے سنگم پر واقع ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے اور کہاں کا انصاف ہے کہ تمام پشتونوں کو اس دقیانوسی تصوّر یا خیال کے ڈبّے پر یہ عنوان چسپاں کر کے بنّد کر دیا جائے کہ “ہر پشتون کا پشتون لگنے یا ہونے کے لیے کسی گورے کی طرح لگنا ضروری ہے۔”
در حقیقت پشتونوں کی نسلی بناوٹ، جو کہ معاشرتی طور تعمیر و استوار کی جاتی ہے، ان کی تاریخ کی طرح بہت مخلوط اور متنوع ہے۔
تکنیکی طور پر دیکھا جا ئے تو پشتونوں کے بارے میں بعض یہ کہتے ہیں وہ آریائی یا کاکیشین (قفقازی) ہیں۔ لیکن زمینی حقائق اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ پشتونوں کے پاس اللہ کے اپنے انسانوں کو عطا کردہ ہر طرح کی جلد ، بالوں اور آنکھوں کے رنگ ہیں اور وہ سب ہی اپنی اپنی جگہ مُنفرد اور خوبصورت ہیں۔
کسی کا کم یا زیادہ گورا لگنا، جلد کا رنگ گندمی، بھورا یا کا لا ہونا، آنکھوں کا رنگ نیلا، سبز، بنفشی، کاسنی ہونا، یا بالوں کا سیاہ، سنہری، سُرخ یا بھورا ہونا جیسی خصوصیات صرف پشتونوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس خطّے کی دیگر اقوام مثلاً کشمیری، ایرانی، عرب وغیرہ میں بھی موجود ہیں۔
لہٰذا کسی کا پشتونوں کے بار ے میں (یا کسی اور نسل، قوم، قبیلے یا گروہ کے بارے میں) یہ دقیانوسی تصور یا خیال رکھنا کہ “ہر پشتون کا پشتون لگنے یا ہونے کے لیے کسی گورے کی طرح لگنا ضروری ہے۔” اس کے اپنے ذہن کی ایک فروعی اختراع تو ہو سکتی ہے لیکن کسی کا پشتون (کم یا زیادہ ) ہونے کے لیے کوئی میعار یا شرط نہیں اور نہ ہی اس کا حقیقت کے سا تھ کوئی تعلّق ہے۔