!خیبر پختونخواہ سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی کے لیے
کاکازئی “شیخ” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی شیخ” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔
شیخ: یہ لفظ عربی زبان کا ہے ۔عربی، پشتو اور اُردو میں شیخ کے معنی بوڑھا آدمی، پیر، مُرشد، بزرگ، مذہبی علوم میں فائق، سرگردہ، پیشوا، خانقاہ کا سردار، سجادہ نشین، مُسلمانوں کی ایک ذات، عرب کا سردار کے ہیں۔
برِّصغیر پاک وہند میں مسلم حکمرانوں کے دربار میں ملازم قانونگوہ (قانون پڑھنے والے) کو شیخ کہا جاتاتھا-ان میں دُوسری قوموں کے علاوہ کچھ پختون بھی تھے – یہ لوگ قانونگوہی کے شعبوں میں ، بطور قاضی، جج، وکیل ، پٹواری ، رجسٹرار وغیرہ خدمات انجام دیتے تھے-
ہندو ان لوگوں کو شیخ کہتے تھے جن لوگوں نے عربی شیخ تاجران کے مذہب، دینِ اسلام، کو قبُول کیا تھا۔ ہندو ان لوگوں کو بھی شیخ کہتے تھے جنہوں نےسرزَمینِ عرب سے برِّصغیر پاک وہند کی طرف ہجرت کی تھی۔
کئی دُوسری قومیں بھی، مثلاًکھتری،ہندو برہمن، راجپوت، بھٹی، خواجہ ،کشمیری، صدیقی، میاں، راٹھور، چوہان، رنگریز وغیرہ، شیخ کواپنےنام کے ساتھ اِستعمال کرتی ہیں۔
“ککے یا کاکازئی شیخ” ، پختونوں میں ایک علیحدہ قوم یا قبیلہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ا س کا تعلّق پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ ہے۔
اب آپ خُود منطقی طور پرسوچیں کہ ایک خاندان میں، ایک برادری میں ،ایک قبیلے میں، ایک جرگے میں، ایک گاؤں میں، ایک شہرمیں، ایک مُلک وغیرہ میں آخر کتنے شیخ ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کو ایک طرف پختون، یعنی کاکازئی، کہتا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ شیخ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شیخ بھی ہو اور پختون بھی، خصوصاً جب اُس کے آس پاس نہ صرف اسکی اپنی برادری کے لوگ بلکہ، دُوسری قوموں کے لوگ بھی، مثلاًکھتری،ہندو برہمن، راجپوت، بھٹی، خواجہ ،کشمیری، صدیقی، میاں، راٹھور، چوہان، رنگریز وغیرہ ، “شیخ “کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کررہے ہوں۔ اس لیے، ازراہِ مہربانی! “شیخ” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔