کیا پنجاب کے کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کا کلوار/کلوڑ/کلواڑ (یا کالال، کَلال ، کلر) ذات سے کوئی تعلّق ہے؟

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کاکازئی   (لوئی ماموند)    صِرف اور صِرف پشتون ہیں

پنجاب کے   کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کا  کلوار/کلوڑ/کلواڑ (یا کالال، کَلال ، کلر)ذات سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔ 

پشتونوں کے جدِامجد، قیس عبدالرشید، کے بار ے میں، بعض روایات کے مطابق، وہ پہلے پشتون تھے جنہوں نے مدینہ حاضر ہو کر وہاں ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ سے ملاقات کی، اسلام قبول کیا او ر نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا بھی کی (بعض روایات میں عصا عطا کرنے کا بھی ذکر ہے)۔ اسی مُناسبت سے ان کو صحابئ رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مزارِ اَقدس آج بھی تختِ سلیمان، دارازندہ، ڈیرہ اسماعیل خان، میں موجُود ہے۔

Qais Abdul Rashid Tomb
Qais Abdul Rashid Tomb – Great Grandfather of the Pashtuns

کاکازئی (ککےزئی، ککازئی ، کاکازئی محض ُ مُختلف ہجے    ہیں ایک ہی قبیلہ کے نام  کے۔ جیسے ترکانی، ترکانٹری، ترکلانی یاآفریدی، اپریدی، افریدی وغیرہ )،جو کہ لوئی ماموند کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں،  ماموند ( جن کا  اصل نام  محمود  تھا  مگر “ماموند” کےنام سے جانے جاتے تھے۔ ان  کا  مزارِاقدس  آج  بھی،  موضع  داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں موجودہے۔) کے دو  بیٹوں میں سے بڑے بیٹے  کی  نسل  یا  اولاد  کو کہا  جاتا  ہے،  جو  کہ  بُنیادی  اور  نسلی  طور پر  ترکانی /ترکلانی  پشتونوں ،  جو کہ خود  سڑبن  کی  اولاد تھے،کی  اولاد  میں سےہیں ۔

یہ مزار ِاقدس ، جو کہ موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ ایجنسی میں موجود ہے، کاکازئی (لوئی ماموند) پختونوں کے والدِ محترم ” محمود ” کا ہے جو کہ” ماموند” کے نام سے مشہور تھے- The tomb of Mamund (Mahmud), Father of Kakazai (Loi Mamund) Pashtuns in Daag, Bajaur.

کاکازئی (لوئی ماموند)پشتونوں کے داد، ا ترکانی/ترکلانی /ترکانڑی (جو کہ خود قیس عبدالرشید کے بیٹے، سڑبن، کی اولاد میں سےتھے)، کے چار بیٹے تھے : ماموند، سالارزئی، ایسو زئی اور اسماعیل زئی۔

  ماموند(محمود)،  کاکازئی  پشتونوں  کے  والد ِ امجد ،  کے  دو  بیٹے  تھے۔   بڑے کی  اولاد کو  “کاکازئی”  اور  چھوٹے  کی  اولاد کو  ” ووڑ ”  یا   “ووڑزئی ”   کہا  جاتا  ہے۔  “کاکا”،  پشتو  میں  بڑے  کے لیے استعمال  ہوتا ہے۔  اور  “زئی”  کا  مطلب  نسل  یا  اولاد  ہے،  یعنی  “کاکازئی”  کا  مطلب  بڑے  کی  نسل  یا  اولاد  ہے۔  اسی  مُناسبت  سے  ان  کو  لوئی ماموند  یعنی   بڑا  ماموند  بھی  کہا جاتا  ہے۔  “ووڑ ”  پشتو  میں  چھوٹے  کے لیے  استعمال  ہوتا  ہے،   یعنی  ” ووڑزئی ”  کا  مطلب  چھوٹے  کی  نسل  یا  اولاد  ہے۔  اسی  مُناسبت  سے  ان  کو  ووڑ/واڑہ  ماموند  یعنی  چھوٹا  ماموند  بھی  کہا  جاتا  ہے۔  کاکازئی  (لوئی ماموند)  پشتونوں  کی   بُنیادی  خیلوں  (ذیلی  قبیلوں )  کے  نام  درج  ذیل  ہیں:   محسود خیل،   خلوزئی،  محمود خیل،  دولت خیل،  عمرخیل،  مغدود خیل،  یوسف خیل 

پشتو  میں  معنوی  اعتبار  سے  اور  بزرگ   پشتون،  اُردو  اور  انگریزی  تاریخ  دانوں  کی  کتابوں  کے  اعتبار   سے  صحیح،  مُستند  اور  درُست  ہجے

کاکازئی  / Kakazai

ہیں۔

کاکازئی ، محمود غزنوی،  بہلول لودھی  اور  دیگر  افغان  حملہ  آور  افواج  کے  حملوں  کے  دوران ،  دوسرے  پشتون  قبائل  کے ساتھ ،  افغانستان  سے  جنوبی  ایشیاء  آئے  او ر  مختلف  علاقوں  میں  آباد  ہوئے۔وہ  پنجاب میں 1121 ء سے بھی پہلے کے آباد ہیں۔ 

Should the above map doesn’t work properly in your browser then either please click here or visit this link: https://bit.ly/3ad7ubj

کاکازئی پشتونوں کی جنگی میراث کا ذکر کرتے ہوئے ، پیر معظم شاہ نے اپنی کتاب ” تواریخِ ِحافظ رحمت خانی ‘ ‘ (اشاعتِ اوّل:1624 اے۔ڈی، صفحہ: 89-91) اور اولاف کیرو ئے نے اپنی کتاب “دی پٹھانز 550 بی۔ سی – اے ۔ڈی 1957” (اشاعتِ اوّل : 1958 ء ، صفحہ: 184-185) ، میں یوسف زئیوں اور دالزکوں کے مابین باجوڑ کو فتح کرنےکے لیے ایک جنگ کے بارے میں لکھّا ہے، جس میں کاکازئی پشتونوں نے یوسف زئیوں کی جانب سے لڑتے ہوئے، ملک ہیبو (دالزک) پر تلوار کا پہلا وار پائندہ کاکازئی ترکلانی نے کیا لیکن آخر کار بُرہان کاکازئی ترکلانی کی تلوارکےوار نے ان کا سر قلم کر دیا اور باجوڑ کو فتح کر لیا۔

چُونکہ  پشتون  بُنیادی  طور  پر  قبائلی  ہیں،  اس  لیے  ان  میں  ٹَبّر،  قومیں،  قبیلے  اور خیلیں تو  ہیں،  لیکن  ذاتیں  پاتیں  وغیرہ  نہیں  ہیں۔  لہٰذا  “کاکازئی”  کوئی   ذات  نہیں  ہے،  بلکہ  ایک  قبیلہ  ہے۔

—————————————

برطانوی استعمار نے  اپنے برصغیر کے برطانوی راج دور میں، برطانوی  سول افسران کے ہا تھوں  اپنے استعمار کو قائم رکھنے کے لیے  1865، 1872، 1881 اور 1883 میں مردم شماری کرائی ۔اور ڈینزل ایبٹسن، ہوریس  آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور  ایڈورڈمیکلیگن، جو کہ برطانوی راج کے اعلیٰ سول افسران میں سے تھے،  ان کی  کتابیں، “صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” ، ڈینزل ایبیٹسن کی کتاب، “پنجاب کی ذاتیں“، جوکہ 1883 کی مردم شماری  کی رپورٹ میں اشاعت شدہ باب،”لوگوں کی نسلیں، ذاتیں اور قبائل” کی کتابی شکل میں دوبارہ اشاعت تھی ،و ہ بُنیادی طور پر مردم شماری کی رپورٹس پرمشتمل تھی۔ اسی لیے وہ   ایک دوسرے کی نقل کرتی ہیں ۔       ڈینزل ایبیٹسن کے اپنے الفا ظ میں”ہم جن لوگوں کے مابین رہتے ہیں ان کے رسم و رواج اور اعتقادات سے ہماری لاعلمی یقینا ًکسی حد تک ہماری لعنت ہے۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ جہالت یوروپی سائنس کو اس مادے سے محروم رکھتی ہے جس کی اسے بہت زیادہ ضرورت ہے ، بلکہ اس میں خود کو انتظامی طاقت کا ایک الگ نقصان بھی شامل ہے۔”

برطانیہ کی ایڈینبرا یونیورسٹی   میں جدید اور معاصر جنوبی ایشیائی تاریخ کے پروفیسر    کرسپن  بیٹس  کی اپنی ایک کتاب کے مطابق، جس کا موضوع  مردم شماری کی رپورٹس ہیں،” برصغیر میں اب تک کی جانے والی کم سے کم تشکیل شدہ مردم شماری کی رپورٹس ،  ایک پرنٹر کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ، چونکہ آبادی کو پہلے سے طے شدہ زمرے میں فٹ ہونے کے بجائے مردم شماری کرنے والوں نے مذہبی عقائد اور پیشوں کے بارے میں نسبتاً کھلے سوالات پوچھے تھے۔ نتیجہ خاص طور پر پیشوں سے متعلق کالموں کا پھیلاؤ تھا۔ افراد ‘کون مین ‘ ، ‘دلال’ ، ‘فاحشہ’ ، ‘بیوقوف’ اور ‘چور’ کے طور پر نمودار ہوئے ۔۔۔۔ بدترین بات یہ ہے کہ ، ذاتوں اور قبائل کے بارے میں یہ درج تھا کہ آیا وہ ‘دشمنی’ ، عیسائی ، ہندو یا محمدڈین تھے ، جواب دہندگان کی خود نمائندگی سے ہٹ کر بہت کم ڈھانچہ یا نظام کے حامل ہیں۔”

” مزید یہ کہ  برطانوی راج کےافسران نے جو طریقے کار اپنائے اس “[قبضے کے لحاظ سے درجہ بندی] نے نہ صرف ہندوستانی آبادی میں نسلی اختلاط ، اور معاشی اور معاشرتی حیثیت میں تبدیلی کے امکانات کے بارے میں غیرمساواتی طور پر مساویانہ نتائج کے امکانات اور ہندوستانی معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں نسل پرستانہ خیالات سےبھی  براہ راست متصادم ہونے کی اجازت دی۔ اس وقت تک منتظمین کے ذہنوں میں ایک ایسی نسل سے زیادہ کی تاریخی تصنیف کی تصدیق ہوچکی تھی۔ جواب میں ایک نیا طریقہ ڈھونڈنا تھا جو سائنسی اعتبار سے اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اب متعصبانہ تعصبات کیا ہیں۔”

ڈینزل ایبیٹسن  نے”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبائلیوں اور ذاتوں کی ایک لغت – ایل زیڈ – جلد 3” کے صفحہ 219 پر پٹھانوں کی تفصیل کے بارے میں لکھا ہے کہ “سچّا پٹھان شاید سب سے وحشی ہے وہ ساری نسلیں جن کے ساتھ ہم پنجاب میں رابطے میں آئے ہیں۔ اس کی زندگی خانہ بدوش قبائل کی طرح قدیم نہیں ہے۔ لیکن وہ خونخوار ، ظالمانہ ، اور اعلی درجے میں ثابت قدم ہے۔۔۔۔ “

پشتونوں  اور    برصغیر کی دیگر قوموں، قبیلوں ، ذاتوں اور نسلوں کے  بارے میں اس قسم کا  تعصب رکھتے ہوئے، ڈینزیل ایبٹسن اور اس کے ہم وطنوں  نے اپنی  کتابوں کو،مردم شماری کی رپورٹس کو اور دیگر اشاعتی مواد کو اپنے پسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ دینے والی) اور ناپسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ نہ دینے والی) قوموں، قبیلوں ، ذاتوں اور نسلوں کو جزا اور سزا دینے  کےلیے استعمال کیا اور اس طرح سائنسی نسل پرستی  اور تعصب کی ایک نئی شکل کو جنم دیا۔اور اسی سائنسی نسل پرستی، تعصب ، ‘چھڑی اور گاجر’ اور ‘تقسیم اور فتح کی حکمت عملی’ کو استعمال کرتے ہوئےبرطانوی شاہی ایجنڈے کی بھرپور خدمت کی۔ وہ  قبائل، اقوام، ذاتیں اور نسلیں  جو ناپسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ نہ دینے والی)  قرار پائیں  اور ان کو سرکاری   دستاویزات (مردم شماری رپورٹس وغیرہ ) میں ان کی سزا کے طور پر غلط کالم میں لکھا گیا یا ان کی غلط درجہ بندی کی گئی   ان کو سرکاری دستاویزات میں اپنی تاریخ اور نسل کی اصلاح کروانے میں کئی دہائیاں لگ گئیں ، مگر وہ برطانوی استعمار کی اس    زیادتی ،بدعنوانی اور جان بوجھ کر غلط درجہ بندی کی آزمائش میں(مثلاً پشتون اپنے پشتون ورثے پر اصرار کرتے ہوئے اپنی اصلیّت پر ڈٹے رہے) ،لیکن جو نقصان  برطانوی  استعمار ان کو نقصان ان کو پہنچا چکا تھا اس کی بازگشت آج ، جب کہ برطانوی استعمار کو برصغیر پاک و ہند چھوڑے کئی عشرے بیت چکے ہیں، بھی سنائی دیتی ہے۔

پنجاب کےکچھ کاکازئی پشتونوں  (اس وقت ان کو افغان کہا جاتا تھا کیونکہ وہ افغانستان سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے)، جو کہ پنجاب میں 1121 ء سے بھی پہلے کے آباد ہیں اور برصغیر میں محمود غزنوی، بہلول لودھی  کی افواج کے ساتھ دیگر پشتون قبائل ، نیازی ، برکی ، یوسف زئی وغیرہ، کے ساتھ آئےتھے، کے ساتھ برطانوی استعمار نے جوکچھ کیا اس کی داستان کچھ یو ں ہے  کہ کلوار/کلوڑ/کلواڑ (یا کالال، کَلال ، کلر) ایک ہندوستانی ذات ہے جو تاریخی طور پر اترپردیش ، راجستھان ، پنجاب ، ہریانہ ، اور شمالی اور وسطی ہندوستان کے دیگر حصوں میں پائی جاتی ہےاور موروثی و  روایتی طور پر شراب کی آسون سے وابستہ ہے ، لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں مختلف کلواڑ ذات کی تنظیموں نے اس تجارت کو چھوڑنے اور اپنی برادری کی نئی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔چونکہ شراب کشید کرنے اور بیچنے کےپیشے ، جس پر ان کا قبضہ تھا، کو  ہتک سمجھا جاتا تھا ، لہذا جنوبی ایشیا میں روایتی ذات پات کے درجات میں ان کو بہت کم درجہ حاصل تھا۔ ان میں سے کچھ  نے سکھ اِزم  (جو کہ  ایک اسلام کے مقابلے میں ایک نیا مذہب ہے۔ جب کہ پشتون قیس عبدالرشید کے زمانے سے مسلمان ہیں۔)اور کچھ  نے اسلام  قبول کر لیا۔

 سکھ کلالوں کی  صورتحال اس وقت بدلی جب 18 ویں صدی میں  ان  کے سربراہ(پشتون قبائل میں  سردار یا سربراہ وغیرہ نہیں ہوتے) جسا سنگھ سیاسی اقتدار میں شامل ہوئے۔ جسا سنگھ نے اپنے آبائی گاؤں، اہلو، کے نام پرخود کو اہلووالیہ کے طور پر اسٹائل کیا ، اور ریاست کپور  تھلہ  میں حکمران خاندان قائم کیا۔ جسا سنگھ کے عروج کے بعد ، دوسرے سکھ کلالوں   نے بھی اہلوالیہ کو اپنی ذات کے نام کے طور پر اپنایا ، اور اپنا موروثی و  روایتی پیشہ ترک کرنا شروع کردیا۔ نوآبادیاتی برطانوی انتظامیہ کی طرف سے شراب کی تیاری اور فروخت پر عائد ضابطوں نے اس عمل کو اورتیز کردیا ، اور 20 ویں صدی کے اوائل تک ، زیادہ تر کلالوں نے اپنا موروثی و  روایتی پیشہ ترک کردیا تھا۔ اس وقت تک ، اہلوالیوں نے اپنی سماجی حیثیت کو بڑھانے کے لئے کھتری یا راجپوت ہونے  کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا تھا۔انگریزوں کی حکمرانی کی آمد سے قبل ، وہ کلال جنہوں نے   اسلام قبول کیا تھا، اپنے سکھ    کلال برادری کی پیروی میں ، پنجاب میں پہلے سے کئی صدیوں سے موجود ککے زئی  پشتونو ں کی  پشتون شناخت کو اپنا کر اپنے معاشرتی مقام کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ  پہلے  کلال سے بنے ککےزئی ، جیسے ہوشیار پور خاندان ، جس نے 1840 میں جالندھر دوآب پر حکمرانی کی ، پھر انہوں نے اعلیٰ ذات کے شیخ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی حیثیت میں مزید اضافہ کیا۔ الٰہ آباد میں کلال، 1890 کی دہائی میں، خود کو کشتریائی حیثیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔

ان عشروں میں جب برطانوی راج کے شمال مغربی  صوبے (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں موجود پشتون قبائل، صوبے کے مختلف حصّوں میں ، انگریزی استعمار کے خلاف اپنی بقا  کی جنگ لڑرہے تھے ، جن میں باجوڑ کی وادیء ماموند(جو کہ کاکازئی پشتونوں کے والدِ محترم ، ماموند، کے نام پرہے، اس کا قدیم نام وتلائی وادی ہے۔) کےماموند، کاکازئی( لوئی ماموند)  قبیلے اور اس کے چھوٹے بھائی ، واڑہ ماموند  قبیلے  کے لوگ بھی  شامل تھے ، جن  کی  بہادری کے لمحوں کو ونسٹن چرچل نے اپنی کتاب” دی اسٹوری آف  مالاکنڈ فیلڈ فورس” کےصفحہ 274 پر کچھ ان الفاظ میں قلمبند کیا ہے،” …  وادیء  ماموند کے لوگوں کی ہمت،ٹیکٹیکل (جنگی تدبیر) کی مہارت اور ان کی  اپنے ہتھیاروں سے بالکل صحیح نشانے بازی کی مہارت، جس کے لیے  وہ مشہور ہیں  اور جس کا  ہمارے ساتھ لڑائی میں انہوں نے بھر پور مظاہرہ  بھی کیا ہے، کا  ان  کوانکار کرنا ناانصافی اور ناجائز بات ہوگی ۔ اس غیر معینہ مدت   میں، ہمارا مقابلہ جس  طرح انہوں نے کیا ، بربریت کی بے ہنگم آغوش میں جنگ کی  اور ہماری تہذیب  کو دیر تک دھچکا مارا، تو ہماری  تہذیب بغیر کسی ردوکد کے اس بات کا  اعتراف کرتی ہے کہ وہ ایک بہادر اور جنگجو نسل کے لوگ ہیں۔ان کا نام، اس مصروف صدی میں بھی ،ہمارے مردوں کے ذہن میں کچھ سالوں تک رہے گا ، اور انگلینڈ میں ایسے کنبے موجود ہیں جو انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے۔”، 

ڈینزل ایبیٹسن اور اس کے ہم وطن  برطانوی سول افسران نے اپنی کچھ مردم شماری کی رپورٹس میں ، مسلمان  ہونے والے کلالوں  کو، پنجاب میں  کئی صدیو ں سےمُقیم  کاکازئی  پشتونوں کےساتھ ، نہ صرف اپنی رپورٹس کے  کالمز میں لکھ  دیا  بلکہ  ان (ککےزئی پشتونوں )کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ یہ پہلے کلال تھے اوربعد میں مسلمان ہوئے ، حالانکہ بعد میں کلال سے”ککے زئی “بننےوالےکوئی اور تھے۔یہی غلطی ، بہت ساری غلطیوں میں تبدیل ہوئیں جب ڈینزل ایبٹسن، ہوریس  آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور  ایڈورڈمیکلیگن   نے اپنی کتابوں،”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” ، ڈینزل ایبیٹسن کی کتاب، “پنجاب کی ذاتیں”، جوکہ 1883 کی مردم شماری  کی رپورٹ میں اشاعت شدہ باب،”لوگوں کی نسلیں، ذاتیں اور قبائل” کی کتابی شکل میں دوبارہ اشاعت تھی ،وغیرہ  ، میں اور دیگر مُصنفوں  نے ، جنہوں نے  ڈینزل ایبٹسن، ہوریس  آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور  ایڈورڈمیکلیگن   کی  مردم شماری  کی رپورٹس  اور کتابوں کو حرفِ آخر اور غلطیوں سے مُبرّاسمجھتے  بغیر کسی مزید تحقیق کے  اپنی  کتابوں میں دہر ا دیا۔

ایک اہم ،قابلِ ذکر اور ستم ظریفی  کی  بات یہ ہے  کہ ڈینزل ایبٹسن، ہوریس  آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور  ایڈورڈمیکلیگن   نے “صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبائلیوں اور ذاتوں کی ایک لغت – ایل زیڈ – جلد 3” کے صفحہ249-250 میں اور  ڈینزیل ایبیٹسن  نے اپنی کتاب “پنجاب کی ذاتیں” کے صفحہ 70-71 اور 86-80  پر کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے دادا، ترکلانڑی(ترکانی یا ترکلانی)کا نہ صر ف ذکر کیا ہے بلکہ اپنی طرف سے ایک عدد شجرہ ، گو کہ غلط، بھی شائع کیا  ہے، گویا کہ پنجاب کے ککے زئی پشتونوں کوبالواسطہ پشتون یا افغان(اس وقت پٹھانوں کے استعمال کردہ لفظ) اپنی انہی کتابوں میں  ، پہلے کچھ اور لکھ کر، بعد میں تسلیم بھی کیا ہے ۔

اگر  صرف پنجاب کے کاکازئیوں کی بات کی جائے تو برطانوی راج کے دور میں شائع ہونے والی درج ذیل کتابیں  ان کی موجودگی کو تسلیم کرتی ہیں

“Handbook of the Manufactures And Arts of the Punjab – With A Combined Glossary And Index of Vernacular Traders and Technical Terms, &c., &c. – Forming Vol. II – To The “Handbook of The Econocim Products of the Punjab” – Prepared Under the Order of Government by Baden Henry Baden-Powell (H. M. Bengal Civil Service)” – Page 78 and 79

Acknowledges Kakazai Traders in Sialkot (spelled as ‘Sealkot’) and as far as Peshawar

(Originally Published in 1872)

“Customary Law of the Gujrat District” – Volume IX – by Captain H. Davies (Settlement Officer) – Page 2

Acknowledges of the Kakazai Tribe in Gujrat, Kharian and, Phalia

(Originally Published in 1892)

“The Cyclopædia of India and of Eastern and Southern Asia” – by Edward Balfour (Page 655) – Originally Publish in 1885 ::

Acknowledges the Kakazai Pashtuns in Lahore

“Report of the Commissioners Appointed by the Punjab Sub-Committee of the Indian National Congress, Indian National Congress. Punjab Subcommittee” – Volum II – Evidence – Page 290, 291, 292 and more

Acknowledges Kakazai, Kucha Kakazaian and Kakazaian Street in Lahore

(Originally Published in 1920)

“Tribal Law in the Punjab – So Far As It Relates To Right In Ancestral Land” – by Charles Arthur Roe (Senior Judge of the Chief Court of the Punjab) and H. A. Rattigan (Barrister At Law of Lincoln’s Inn) :: Page 46, 68, 75 – Acknowledges the Kakazai in Sialkot, Pasrur and other places (Originally Published in 1895)

“The Afghan nobility and the Mughals: 1526-1707” – by Rita Joshi – Page 9 – Vikas Publ. House, New Delhi, India. ISBN 978-0706927528.

کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے متعلق مزید پشتو، اردو اور انگریزی میں  کتابوں کے نام اور ان کے حوالہ جات  اس لنک پر دستیاب ہیں۔ 

یہ بات  قابلِ ذکر ہے کہ کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں ، مع کچھ دیگر پشتون قبائل کے ،نہ صرف ڈی-این-اے  اسٹدی ہوچکی ہے بلکہ پنجاب  کے کاکازئی پشتونوں کے پس منظرکا ذکرپشاور یونیورسٹی کے ایک پی-ایچ-ڈی مقالے میں بھی ہو چکا ہے۔

 بہرحال  اس غلطی کو سرکاری دستاویز ات میں  درُست کروانے کے لیے پنجاب کے کاکازئیوں نے عدالتوں   کارُخ کیا اور بالآخر اس کو درُست کروایا۔ اس تمام جدو جہد کی  داستان کے کردار، وہ کاکازئی اشخاص جنہوں نے برطانوی راج کے برطانوی استعمار کے کارندوں کی  عدالتوں میں اپنا حق لینے کی جنگ لڑی ،تو زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی اولادیں آج بھی اپنے بزرگوں کی جدوجہد کی گواہی دینے کے لیےپنجاب میں موجود ہیں۔مزید اس کا کچھ ریکارڈ آج بھی لاہور کی کاکازئی ایسوسی ایشن، جوکہ پاکستان  اور پنجاب میں موجود قیام ِ پاکستان  سے بھی پہلے کی ایسوسی ایشن ہے، میں موجود ہے۔ اس  جدو جہدکی داستان کے کچھ حصّوں کو ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدروی(جو کہ پنجاب میں کاکازئیوں کی کئی صدیوں سے موجودگی کے باعث پشتو سے نابلد تھے)   نے اپنی ” ہِدایتِ افغانی المعروف تاریخِ ککے زئی ترکانی “، فینسی اسٹیم پریس. وزیرآباد ۱۹۳۳ء میں قلم بند کیا ہے۔ مگراس غلطی کی بازگشت آج بھی، جب برطانوی راج کا سُورج غروب ہوئے کئی عشرے  گذر چکے ہیں، کبھی کبھار  ،  اپنوں     سےیا غیروں سے (مثلاً کتابوں ، ویڈیوز وغیرہ  میں) سنائی دے جاتی ہے۔

لہٰذا  پنجاب کے   کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کا  کلوار/کلوڑ/کلواڑ (یا کالال، کَلال ، کلر)  ذات سے کوئی تعلّق  نہیں ہے۔ 

©  www.kakazai.com