اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے، “اے لوگو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھّیں تمہاری قومیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزّت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور با خبر ہے۔ ” (سورہ الحجرات: 49:13)۔ یعنی اللہ نے پہلے سے ہی ہمیں نہ صرف سرداروں کے سردار ، ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی اُمّتِ محمدیﷺمیں پیدا فرمایا ہےبلکہ ہمیں پشتونوں کے پشتون نسلی قبائلی معاشرہ (جس میں 49 ملین سے زیادہ افراد، 60 بڑے قبیلے اور 400 سے زیادہ ذیلی قبیلے ہیں اورجسے دنیا کا سب سے بڑا نسلی قبائلی معاشرہ مانا جاتا ہے۔ اور پشتو میں ایک پرانی کہاوت ہے، ” پښتون تل پښتون وي “ جس کے لفظی معانی کچھ یوں ہیں کہ ایک “پشتون ہمیشہ پشتون رہتا ہے۔”)کےایک معزّز اور بہادر قبیلے میں پیدا کرکے ہمیں اتّحاد اور ہماری بُنیادی شناخت بھی فراہم کردی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی سُنّت ، احادیث، شریعت اور خطبہ حجۃ الوداع کی صُورت میں ایک منشور بھی عطا کردیاہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ کسی “عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے “۔ یقیناً خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی، قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظرنہیں آتا۔ خطبہ حجۃ الوداع اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا معاشرتی نظام ترتیب پاتا ہے۔ اسی لیے، پشتون ، بعد از اسلام، پشتون ولی(پشتونوں کا ایک قدیم، قبل از اسلام ، موروثی، غیر تحریری ، سینہ بہ سینہ ، نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ، تہذیبی و جمہوری طرز کا روایتی ، قا نونی ، اخلاقی، سماجی، سیاسی، انتظامی اور ثقافتی اصول و ضوابط سے آراستہ معاشرتی نظام اور ضابطہء حیات ہے جسے عُرفِ عام میں ” پشتونوں کا طریقہ ” ، “پشتونوں کا معاشرتی طرزِ حیات” یا “پشتونوں کا معاشرتی ضابطہ ء حیات” بھی کہا جاتا ہے) کے ان اصول و ضوابط کی پیروی پر زیادہ ز ور دیتے ہیں جو کہ قرآن و سنّت اور شریعت کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ نے پہلے سے ہی ہمارے اتّحاد کے تمام لوازمات پورے کردیے ہیں، صرف اپنی تاریخ جاننے کی اور اپنی تنظیم کرنے کی ذمہ داری ہے جو کہ ہر فرد پر لازم ہے۔
مندرجہ بالا نعمتوں کے ہوتے ہوئے کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کو تو کیا، کسی بھی قوم یا قبیلے کو کسی قسم کے خود ساختہ، نام نہاد ، شخصیت پرستی اور سستی شہرت کے متلاشی “سردار” یا “سربراہ” کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے،اپنی توانائی اور دوسرے وسائل لگا کر کسی شخص کوجو کہ نہ تو مقامی ہو، نہ آپ نے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کی ہو ، نہ آپ اس کو مکمل طور پر یا اس کے خاندان کو یا اس کے ماضی کو جانتے ہوںاور نہ ہی اس کا ڈومیسائل آپ کے علاقے کا ہو، کو محض اس کے چند ہم خیال، موقع پرست ، مفاد پرست ، شخصیت پرست حواریوں کی شہ کی بُنیا دپر یا سماجی میڈیا (واٹس ایپ گروپس، فیس بُک گروپس، میسینجر وغیرہ) کےذریعے “یونیٹی”کا خواب، جس کی اصلیت وحقیقت کا اس کو خود بھی پتہ نہ ہو، کے پرچارکی بُنیاد پریا کسی اور وجہ سے اس کے لیے کنوینشنز کرواکےاس کو کاکازئی پشتونوں کامقامی، صوبائی، وفاقی یا قومی سطح پرخود ساختہ اور نام نہاد “سربراہ” یا”سردار” کہنےکا موقع فراہم کرنا بالکل بھی عقلمندی یا ہوشمندی نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کے رجسٹرڈ شدہ ایسوسی ایشنزکے قوانين ، عائلی اور دیگرقوانین میں اس قسم کے غیر قانونی اَمرکی کوئی گنجائش موجود ہے بلکہ یہ عوام کو گُمراہ اور ان کے ساتھ فراڈ کرنےکے زمرے میں آتا ہے۔
درج ذیل عاجزانہ تجاویز کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں، جن کی آبادی(بشمول پاکستان، افغانستان اور بیرونِ مُلک) 10 سے 20 لاکھ نفوس سے زیادہ نہیں ہوسکتی، کو اپنے آپ کو مُنطّم کرنےمیں مدد و اعانت فراہم کرسکتی ہیں
٭ ہر کاکازئی پشتون کو اپنی دینی اور دُنیاوی تعلیم کی طرف مکمل توجہ دینی چاہیے اور اس کے حصُول کےلیے تندہی کےساتھ محنت کرنی چاہیے۔ تعلیم نہ صرف ایک انسان کوایک اچھا مسلمان و انسان بناتی ہے بلکہ اپنےلیے ، اپنے خاندان کے لیے ایک مثالی کردار، اور اپنے معاشرے کے لیے ایک باشعور، با تہذیب اور باخبرشہری بھی بناتی ہے۔ تعلیم کو محض روزگار کےلیے حاصل کرنا اس کی مکمل افادیت کے کئی پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو سے ہی استفادہ حاصل کرنا ہے۔تعلیم کے حصُول کےلیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ جوں جوں آپ تعلیم حاصل کرتے جائیں ، اس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کی روشنی میں اپنے آپ کو بھی بہتر سے بہتر کرتے جائیں، تاکہ آپ کی تعلیم اور علم کا فائدہ نہ صرف آپ کو پہنچے بلکہ آپ کے اردگرد کے لوگوں کو بھی پہنچے۔ اپنے گاؤں سےتعلیم و ترقّی کے لیے نکل کر، تعلیم حاصل کرکے،اپنے گاؤں کو اپنے آپ سے نہ نکالنا، یعنی پڑھ لکھ کر جاہل ہی رہنا، اپنی تعلیم سے پوری طرح استفادہ حاصل کرنا نہیں ہے۔
٭ حجرہ (بیٹھک) پشتونو ں کی ثقافت میں نوجوانوں کے لیے ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ ادارہ یا تربیّت گاہ ہے( اگر اس کا مثبت استعمال کیا جائے) جہاں سےایک پشتون، خصوصاً نوجوان ،اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ میل جول، گفتگو وغیرہ کے آداب و امور سیکھتا ہے۔ بدقسمتی سےجدید ٹیکنالوجی ( انٹرنیٹ، موبائل فون، ٹیبلیٹ وغیرہ) اورسماجی آلاتِ مواصلات یعنی سوشل میڈیا ( فیسبُک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک، اسکائپ،وٹس ایپ وغیرہ) نے اس اہم ادارے یا تربّیت گاہ کا استعمال کم کردیا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے مثبت استعمال (تعلیم، معلومات وغیرہ )کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے حجروں (بیٹھک وغیرہ) کو نہ صِرف آباد (اگر وہ اُجڑ چکے ہیں تو ان کو دوبارہ آباد کرنا چاہیے) رکھنا چاہیے بلکہ ان کا مثبت استعمال (یعنی ایک دُوسرےکے ساتھ اور پڑوسیوں کے ساتھ رابطے میں رہنا،ایک دُوسرے کی اور پڑوسیوں کی خیروعافیت دریافت کرتے رہنا، ایک دُوسرے کےاور پڑوسیوں کے حالات و واقعات سے باخبر رہنا، ہرمشکل ومُصیبت، خُوشی اور آسانی کے وقت ایک دُوسرے کےاور پڑوسیوں کے کام آنا، ایک دُوسرے کی اور پڑوسیوں کی مدد کرنا،خُود بھی نیکی اور ہدایت کے راستے پر چلنا اور ایک دُوسرے کو بھی نیکی وہدایت کے راستے پر چلنے کی یاد دہانی اور تلقین کرتے رہنا، ایک دُوسرے کے ساتھ مشاورت وغیرہ) بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی ، ہم سب کا بحیثیت ایک مسلمان ہونے کا تقاضہ بھی ہےاور فرض بھی۔
٭ کسی بھی جگہ(گاؤں، قصبہ، شہر وغیرہ) جہاں کاکازئی پشتون ایک معقول تعداد میں آباد ہیں، وہاں ایک ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگ کا انعقاد کرنا چا ہیے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے با خبر رہیں اورایک دوسرے کی غمی و خوشی میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی امداد و تعاون کرسکیں۔ اگر تعداد بہت زیادہ ہے اور آسودہ حال ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ مل کر، مقامی سطح پر(گاؤں، قصبہ، شہر وغیرہ) باقاعدہ حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ ایک انجمن(ایسوسی ایشن) بنائیں، جس کےبہت سارے فائدوں میں سے چند فائدے درج ذیل ہیں
٭٭ حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ انجمن(ایسوسی ایشن) کاکازئی پشتون نوجوانوں کو اپنی توانائیاں مثبت طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرسکتی ہیں ، جس کا باقاعدہ اور فعّال رُکن بن کر اور اس کی سرگرمیوں(مثلاً اجلاس، انتخابات، فنڈ اکھٹا کرناوغیرہ) میں بھرپور اور بڑھ چڑھ کر حصّہ لے کر وہ نہ صرف اپنے آپ کو نظم وضبط سے آراستہ کرسکتے ہیں، بلکہ قیادت کرنے کے امور بھی سیکھ سکتے ہیں جو کہ ان کے مستقبل میں ان کے ملک یا قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام آسکتےہیں۔
٭٭ ایسی انجمنوں میں نوجوانوں، طلباء اور غرباء کی رُکنیت مُفت ہونی چاہیے۔اور اقرباء پروری کی لعنت سے بچنے کے لیے، ایک ہی خاندان کے افراد کو بار بار ، انجمنوں کے عہدے (صدر، جنرل سیکریٹری، خزانچی وغیرہ) نہیں دینے چاہییں۔ اگر کوئی مخیّر کاکازئی پشتون کسی انجمن کوکوئی ، چیز، جائیداد وغیرہ (رقم،مالی امداد،اسکول، کلینک، کالج، ہسپتال وغیرہ) اپنی زندگی میں یا اپنی وصّیت میں تحفتاً دیدے تو ایسی چیز یا جائیداد وغیرہ کو حکومت کے ساتھ باقاعدہ ٹرسٹ میں رکھ کر رجسٹرڈ کیا جائے، اس کا حساب کتاب باقاعدہ اور ٹرانسپیرینٹ رکھا جا ئے تاکہ کسی انجمن کے سرکردہ لوگ ایسی چیز، جائیداد وغیرہ کو اپنے ذانی مقصد کےلیے نہ استعمال کرسکیں اور نہ ہی اس کو اپنے یا اپنے خاندان کے کسی فرد کے نام منتقل کر سکیں۔
٭٭ جب ایک ہی گاؤں، قصبے، شہر، محلے وغیرہ میں رہنے والے کاکازئی پشتون بچّوں، نوجوانوں اور بزرگوں کامیل جول ، حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ انجمن(ایسوسی ایشن) کے ذریعے بڑھے گا ، تو یہ انجمن نہ صرف ان کو بحیثیت اپنے اراکین کےنمائندگی اور قانونی تحفّظ فراہم کرے گی بلکہ سماجی ومعاشرتی خدمات( مثلاً مستحق افراد کو زکوٰۃ ، قابل طلباء وطالبات کو وظائف اور ناداروں کے لیے مالی امداد وغیرہ )بھی انجام دینے کے ساتھ ساتھ کاکازئی بچّے، بچّیوں کے روزگار کے حصُول میں، ایک دوسرے کے ساتھ نکاح وغیرہ میں بھی آسانیاں پیدا کرے گی۔
٭٭ مقامی سطح پر ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز کا انعقادیا حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ ایک انجمنیں(ایسوسی ایشنز) بنانے کو ترجیحی بنیادوں پر بنانا بہت ضروری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگریہ انجمنیں تعداد میں ایک معقول حد سے بڑھ جائیں تو پھر ان کا ایک صوبائی ، وفاقی یا قومی سطح پراتحادی فرنٹ بنانے کے بارے میں سوچا جا سکتاہے، لیکن پھر بھی مقامی سطح پر ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز کا انعقادیا حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ ایک انجمنیں(ایسوسی ایشنز) زیادہ افادیت کی حامل ہیں، کہ یہ اپنے ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز کے شرکاء یا انجمن کے ارکین کو براہِ راست فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے یا بین الا قوامی اداروں کی طرف سے ، قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ انجمنیں(ایسوسی ایشنز)، بعض اوقات فنڈنگ لینے کی بھی اہل ہوتی ہیں۔
٭٭ مقامی سطح پر ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز کے شرکاء یا حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ ایک انجمنوں(ایسوسی ایشنز) کے اراکین اپنے قریبی علاقے کے لوگوں کے ساتھ، یا قریبی گاؤں، قصبہ ، شہر وغیرہ کی کاکازئی ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر نوجوانوںاور بزرگوں کو مصروف رکھنے کےلیے مختلف کھیلوں کے مقابلے، پکنکس، آؤٹ ڈور سرگرمیوں وغیرہ سے لے کر مقامی یا کسی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کےلیے سماجی سرگرمیاں تک کرسکتے ہیں۔ یعنی اس قسم کی میٹنگز اور ایسوسی ایشنز ہر طرح کی مثبت سر گرمیوں کے لیے لاتعداد مواقع فراہم کرتی ہیں۔
٭٭ وہ حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ انجمنیں(ایسوسی ایشنز)، جو پہلے سے موجود ہیں، ان کے عہدہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنی رکنیت کا دائرہ کار بڑھائیں اور زیادہ سے زیادہ اراکین کو ان کی انجمن میں شامل ہونے کا موقع دیں۔نوجوانوں، طلباء اور غرباء کے لیے رکنیت مفت کردیں۔اور جوں جوں ان کی رکنیت کا دائرہ کار بڑھتا جائے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی سماجی خدمات کو بھی بڑھاتے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کاکازئی پشتون مستفید ہوں۔
جوکاکازئی پشتون ، نوجوان یا بزرگ، مقا می سطح پر ان ہفتہ وار یا ماہانہ وار میٹنگز کا حصہ نہیں بننا چاہتے یا حکومت کے ساتھ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ انجمنوں(ایسوسی ایشنز) کی رکنیت نہیں حاصل کرنا چاہتے یا ایسے کاموں کو یا سرگرمیوں کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ اور انجمنیں ان کے پاس ان کے گھر تک چل کر آئیں اور ان کی مدد کریں توان کو یہ بات اپنے آپ سے پوچھنی چاہیے کہ انھوں نے کاکازئی پشتونوں کےلیے آج تک خود کیا کیا ہے کہ لوگ ان کو فائدہ پہنچانے کےلیے ان کے پاس خود آئیں۔ ان کو یہ باد یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ نے قرآنِ کریم میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ”یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والاہے۔(الانفال – 8:53) یعنی اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو پہلے اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ اسی مضمون کو علامہ اقبالؒ نے اس پیرایہ میں بند کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
امّید کی جاتی ہے کہ مندرجہ بالا عاجزانہ تجاویز کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کی مجموعی فلاح و بہبو دکےلیے سُود مند ثابت ہوں گی، اور ان شاءاللہ مستقبل میں کسی بھی شخص کی جانب سے کاکازئی پشتونوں کے خود ساختہ، نام نہاد “سربراہ” یا “سردار” کے مذموم مقصد کی کوششوں کو ناکام کریں گی۔
آخر میں کاکازئی پشتونوں کو ہرقسم کی شخصّیت پرستی ،گروہ بندی، قوم پرستی، خُودنُمائی،فخر، غرور، تکبّر ، بُری عادات، بُری صحبت، بُرے اخلاق وغیرہ سےہر حال میں دُور اور مکمّل اجتناب کرنا چاہیے۔ ہر کاکازئی پشتون کا حتمی مقصد بس ایک مثالی مُسلمان بننا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو صراطِ مُستقیم پر چلنے کی اور اپنا پسندیدہ اور مثالی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔