© تحریر: علؔی خان
!خیبر پختونخواہ سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی کے لیے
“Freedom of speech does not include the right nor it means freedom from consequences.” – Schenck v. the United States, 249 U.S. 47 (1919).
——-
سب سے پہلے ایک اہم اور افسوسناک بات جس کو واضع کرنابہت ضروری ہے، وہ یہ ہے، کہ آسر اجمل (جو کہ ماہرِ نفسیات ہیں اور تاریخی اعتبار سے، مُختلف برادریوں، قوموں، قبیلوں، ذاتوں وغیرہ کی اصلیّت جاننے، تحقیق کرنے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام ماہر الانساب، مؤرخین اور ماہرِ بشریات کرتے ہیں، ماہرِ نفسیات نہیں۔) کو کسی نے بھی، کہیں سے بھی، پنجاب میں آباد کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے اپنی رائے پیش کرنے کی یا کسی قسم کی “تھیوری” پیش کرنے کی دعوت نہیں دی۔ یہ شوقیہ اور متنازعہ “تھیوری” انہوں نے خود ہی پیش کی، اپنا یوٹیوب چینل چلانے کے لیے، یعنی انہوں نے کاکازئیوں کو اور ان کے پس منظر یا تاریخ کو ایک کھیل اور مشغلہ سمجھتے ہوئے بطور ایک چارہ استعمال کیا ،تاکہ زیادہ سے زیادہ ویورز ان کے یوٹیوب چینل پر آئیں، اور اس طرح وہ سستی شہرت کے ساتھ ساتھ کچھ ٹکے بھی کما لیں۔
——-
کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی مختصر تاریخ اور بُنیادی شناخت و پہچان کے بارے میں چند اہم سوالات و جوابات
پشتونوں کے جدِامجد، قیس عبدالرشید، کے بار ے میں، بعض روایات کے مطابق، وہ پہلے پشتون تھے جنہوں نے مدینہ حاضر ہو کر وہاں ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ سے ملاقات کی، اسلام قبول کیا او ر نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا بھی کی (بعض روایات میں عصا عطا کرنے کا بھی ذکر ہے)۔ اسی مُناسبت سے ان کو صحابئ رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مزارِ اَقدس آج بھی تختِ سلیمان، دارازندہ، ڈیرہ اسماعیل خان، میں موجُود ہے۔
کاکازئی (لوئی ماموند) کے قریبی خاندان کے بارے میں بتائیں اور کاکازئی (لوئی ماموند) کا کیا مطلب ہے؟
ترکانی/ترکلانی /ترکانڑی ، کاکازئی پشتونوں کے دادا ، کے چار بیٹے تھے : ماموند، سالارزئی، ایسو زئی اور اسماعیل زئی۔ ماموند(محمود)، کاکازئی پشتونوں کے والد ِ امجد ، کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کی اولاد کو “کاکازئی” اور چھوٹے کی اولاد کو ” ووڑ ” یا “ووڑزئی ” کہا جاتا ہے۔ “کاکا”، پشتو میں بڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور “زئی” کا مطلب نسل یا اولاد ہے، یعنی “کاکازئی” کا مطلب بڑے کی نسل یا اولاد ہے۔ اسی مُناسبت سے ان کو لوئی ماموند یعنی بڑا ماموند بھی کہا جاتا ہے۔ “ووڑ ” پشتو میں چھوٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی ” ووڑزئی ” کا مطلب چھوٹے کی نسل یا اولاد ہے۔ اسی مُناسبت سے ان کو ووڑ/واڑہ ماموند یعنی چھوٹا ماموند بھی کہا جاتا ہے۔ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی بُنیادی خیلوں (ذیلی قبیلوں ) کے نام درج ذیل ہیں: محسود خیل، خلوزئی، محمود خیل، دولت خیل، عمرخیل، مغدود خیل، یوسف خیل
کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی بُنیادی شناخت اور پہچان کیا ہے؟
کاکازئی (ککےزئی، ککازئی ، کاکازئی محض ُ مُختلف ہجے ہیں ایک ہی قبیلہ کے نام کے۔ جیسے ترکانی، ترکانٹری، ترکلانی یاآفریدی، اپریدی، افریدی وغیرہ )،جو کہ لوئی ماموند کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، ماموند ( جن کا اصل نام محمود تھا مگر “ماموند” کےنام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا مزارِاقدس آج بھی، موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں موجودہے۔) کے دو بیٹوں میں سے بڑے بیٹے کی نسل یا اولاد کو کہا جاتا ہے، جو کہ بُنیادی اور نسلی طور پر ترکانی /ترکلانی پشتونوں ، جو کہ خود سڑبن کی اولاد تھے،کی اولاد میں سےہیں ۔
ترکانی/ترکلانی پشتون زیادہ تر باجوڑ میں مقیم ہیں مگر اصل میں ان کا تعلّق افغانستان کے صوبہ لغمان سے تھا ۔
کاکازئی پشتون ، جو کہ بُنیادی اور نسلی طور پر ماموند کی اولاد اور ترکانی /ترکلانی پشتون ہیں، نے نہ صرف اپنی پہچان بنائی ہے اور اس قدر پھیل چکے ہیں کہ ان کوان کے اثر و رسُوخ کی وجہ سے ایک بڑے قبیلےکے طور پر تسلیم کیا جاتاہے۔
کون سی تاریخی کتابوں میں کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کا ذِ کر موجُود ہے؟
اگر مُبالغہ آرائی سے کام نہ بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کا براہ ِ راست یا با لواسطہ ذِکر (ہجے مختلف ہو سکتے ہیں) پشتونوں کی تاریخ کے موضوع پر لکھّی تقریباً ہر اہم تاریخی کتاب میں موجُود ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے صحیح ہے کہ کاکازئی (لوئی ماموند) بُنیادی اور نسلی طور پر سڑبن کی اولاد ، ترکانی /ترکلانی پشتونوں میں سے ہیں۔ اور پشتونوں کی تاریخ کے موضوع پر لکھی کوئی بھی کتاب کاکازئی پشتونوں کے جدِ امجد، سڑبن، خرشبون (خیرالدّین ) ، کنڈ، خشی ، ترکانی/ترکلانی /ترکانڑی یا ماموند کے ذِکر کے بغیر نا مُکمّل ہے۔ مزید تفصیل اور حوالہ جات کے لیے درج ذیل اُردو اور پشتو تاریخ دانوں کی کتابیں دیکھیے: “تواریخِ حافظ رحمت خانی”، “تاریخِ خان جہانی و مخزنِ افغانی“، “حیاتِ افغانی“، “صولتِ افغانی“، “تذکرہ: پٹھانوں کی اصلیّت اور اُن کی تاریخ“، “یوسف زئی قوم کی سرگزشت“، “پښتانه قبيلی وپېژنئ – ډاکټر لطيف ياد” ، “ پښتانه د تاريخ په رڼا کې – سيد بهادرشاه ظفر کاکاخیل” اور دیگر۔
پشتو میں معنوی اور تاریخی کتابوں کے اعتبار سے کون سے ہجے درُست ہیں؟
پشتو میں معنوی اعتبار سے اور بزرگ پشتون، اُردو اور انگریزی تاریخ دانوں کی کتابوں کے اعتبار سے صحیح، مُستند اور درُست ہجے
کاکازئی / Kakazai
ہیں۔
کیا “کاکازئی” کوئی ذات ہے یا قبیلہ ہے؟
چُونکہ پشتون بُنیادی طور پر قبائلی ہیں، اس لیے ان میں ٹَبّر، قومیں، قبیلے اور خیلیں تو ہیں، لیکن ذاتیں پاتیں وغیرہ نہیں ہیں۔ لہٰذا “کاکازئی” کوئی ذات نہیں ہے، بلکہ ایک قبیلہ ہے۔
کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی جنگی میراث کی کوئی مثال د یجیے؟
کاکازئی پشتونوں کی جنگی میراث کا ذکر کرتے ہوئے ، پیر معظم شاہ نے اپنی کتاب ” تواریخِ ِحافظ رحمت خانی ‘ ‘ (اشاعتِ اوّل:1624 اے۔ڈی، صفحہ: 89-91) اور اولاف کیرو ئے نے اپنی کتاب “دی پٹھانز 550 بی۔ سی – اے ۔ڈی 1957” (اشاعتِ اوّل : 1958 ء ، صفحہ: 184-185) ، میں یوسف زئیوں اور دالزکوں کے مابین باجوڑ کو فتح کرنےکے لیے ایک جنگ کے بارے میں لکھّا ہے، جس میں کاکازئی پشتونوں نے یوسف زئیوں کی جانب سے لڑتے ہوئے، ملک ہیبو (دالزک) پر تلوار کا پہلا وار پائندہ کاکازئی ترکلانی نے کیا لیکن آخر کار بُرہان کاکازئی ترکلانی کی تلوارکےوار نے ان کا سر قلم کر دیا اور باجوڑ کو فتح کر لیا۔
کاکازئی (لوئی ماموند) افغانستان سے جنوبی ایشیاء کیسے آئے؟
کاکازئی ، محمود غزنوی، بہلول لودھی اور دیگر افغان حملہ آور افواج کے حملوں کے دوران ، دوسرے پشتون قبائل کے ساتھ ، افغانستان سے جنوبی ایشیاء آئے او ر مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔وہ پنجاب میں 1121 ء سے بھی پہلے کے آباد ہیں۔
کاکازئی (لوئی ماموند) پشتون افغانستان سے باہر جنوبی ایشیاء اور دیگر علاقوں میں کیسے آباد ہوئے؟
کاکازئی ، محمود غزنوی، بہلول لودھی اور دیگر افغان حملہ آور افواج کے حملوں کے دوران ، دوسرے پشتون قبائل کے ساتھ ، افغانستان سے جنوبی ایشیاء آئے اور مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔حملہ آور افواج کے لئے ، پنجاب اور دیگر مفتوحہ علاقوں میں ریسٹ ہاؤسز ، چھاؤنیاں، نوآبادیاں اور سرحدی چوکیاں قائم کی گئیں جو خطّے کی چیزوں اور امُور پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی نئی معلومات (جیسے کسی حریف یا سلطنت کی ممکنہ کمزوری وغیرہ) کے حصُول ، آمدورفت پر نظر رکھنے ، مفتوحہ علاقوں کو اپنے زیرِ انتظام رکھنے ، ہر قسم کی شورش کی روک تھام ، او ر مستقبل کے حملوں کی تیاری وغیرہ کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ رفتہ رفتہ بہت سے افسران اور اہلکار اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ وہاں مُستقل طور آباد ہو گئے۔
اس کے علاوہ ، جیسےکہ خیبر پختونخوا ہ اور افغانستان کے پشتون بیلٹ کے زیادہ تر علاقوں کے بارے میں آج بھی یہ حقیقت ہے کہ زمین اکثر بنجر اور وسائل کی کمی کا شکار ہے، لہٰذا صرف ایک محدود آبادی کی حد تک ہی میزبانی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اسی لیے وہاں کم آبادی ہوتی ہے اورایک بار جب کسی آبادی یا قبیلے کی تعداد ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتی ہے ، تو وہ اکثر مشرق کے زیادہ آبا د علاقوں (سندھ ، پنجاب ، کشمیر وغیرہ) کا رُخ کر تے ہیں – یا پیداواری زرعی اراضی کی تلاش میں دوسرے قبائل انھیں باہر دھکیل دیتے ہیں۔ مشرقی پنجاب، سیالکوٹ ، فیصل آباد ، وزیر آباد اور لاہور وغیرہ کے نواحی علاقوں کی زمین زرعی اعتبار سے بہت زرخیز اور نفع بخش ہے۔ اسی لیے ان علاقوں میں پشتون خاندان ایک تسلسل کے ساتھ رہتے اور حکمرانی کرتے رہے ہیں جن میں سے بہت سے کا کازئی تھے اور دیگر برکی اور نیازی پشتون تھے۔
مشرقی پنجاب اور بھارت سے کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں نے ہجرت کیوں کی؟
بہت سے کاکازئی ، برکی اور دیگر قابل ِذکر پشتون خاندان قبل ازیں آزادیء برِّصغیر پاک و ہند ، برطانوی بھارت کے شہر جالندھر اور گورداسپور اضلاع میں آباد تھے جہاں انہوں نے نوآبادیات قائم کی تھیں۔ مشرقی پنجاب ، ہندوستان کے گورداسپور سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا کاکازئی گروپ بارہ گاؤں میں آباد تھا، جن میں بابل چک ، فیض اللہ چک ، ست کوہیا (ستکوہا) ، اور وزیر چک نزددھاریوال شامل ہیں۔ اگست 1947 میں آزادی کے موقع پر ، انہیں شروع میں بتایا گیا کہ ان کے علاقے اور وہ (مسلمان ہونے کےناطے) پاکستان میں شامل ہوں گے مگر جب ایسا نہ ہوا ، تو وہ برِّصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات میں پھنس گئے اور اپنے علاقے چھوڑکر ہجرت پرمجبور ہوگئےکیونکہ ان کے علاقے بھارت کا حصہ بن گئے۔
آج کے دور میں کاکازئی (لوئی ماموند) پاکستان اور افغانستان کے کن علاقوں میں مقیم ہیں؟
آج کے دور میں، کاکازئی کی اکثریت پاکستان اور افغانستان میں مقیم ہے۔
افغانستان میں ، و ہ صوبہ کنڑ کے مرورې، شوړتن، بر کاڼي، دانگام علاقوں کے ساتھ ساتھ لغمان کے کچھ علاقوں میں رہتے ہیں۔
پاکستان میں ، وہ تمام صوبوں میں رہتے ہیں ۔خاص طور پر درہ کاکازئی (وادیءوتلائی ، جسے وادی ءماموند بھی کہا جاتا ہے) کے علاقوں میں ، باجوڑ (تحصیل ماموند کے علاقوں غاښي، شبنتر، ذکي، کټوټ، گيري، زري، ترخو، لغړۍ، کالوزۍ، کږه، موخه اور ميا نه ) ، پشاور ، لاہور ، سیالکوٹ ، فیصل آباد ، وزیر آباد، ایبٹ آباد ، ڈیرہ غازی خان ، کوئٹہ ، کراچی ، کشمیر ، جہلم ، بھلوال ، سرگودھا ، چکوال ، گجرات ، عیسیٰ خیل ، موسیٰ خیل ، اور کِلی کاکازئی (پشین ، بلوچستان) اوردیگر علاقوں میں آباد ہیں۔
نتیجتاً کاکازئی پشتون ، پشتو بولے جانے والے علاقوں میں نہ رہنے کی وجہ سے صرف پشتو نہیں بولتے بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بولی جانے والی دُوسری مقامی زُبانوں، جیسے کہ، اُردو، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، بلوچی، دری (فارسی) وغیرہ بھی بولتے ہیں۔ اس کے باوجُود وہ پشتونولی پر عمل کر تے ہیں او ر اپنے لباس، پکوان، کھانا پینا اور جنگی میراث پر پشتون ثقافت اور روایات کے مطابق عمل درآمد کرتے ہیں۔
Should the above map doesn’t work properly in your browser then either please click here or visit this link: https://bit.ly/3ad7ubj
——-
اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے، “اے لوگو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھّیں تمہاری قومیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزّت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور با خبر ہے۔ ” (سورہ الحجرات: 49:13)۔ یعنی اللہ نے پہلے سے ہی ہمیں نہ صرف سرداروں کے سردار ، ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی اُمّتِ محمدیﷺمیں پیدا فرمایا ہےبلکہ ہمیں پشتونوں کے پشتون نسلی قبائلی معاشرہ (جس میں 49 ملین سے زیادہ افراد، 60 بڑے قبیلے اور 400 سے زیادہ ذیلی قبیلے ہیں اورجسے دنیا کا سب سے بڑا نسلی قبائلی معاشرہ مانا جاتا ہے۔ اور پشتو میں ایک پرانی کہاوت ہے، “ پښتون تل پښتون وي ” جس کے لفظی معانی کچھ یوں ہیں کہ ایک “پشتون ہمیشہ پشتون رہتا ہے۔”)کےایک معزّز اور بہادر قبیلے میں پیدا کرکے ہمیں اتّحاد اور ہماری بُنیادی شناخت بھی فراہم کردی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی سُنّت ، احادیث، شریعت اور خطبہ حجۃ الوداع کی صُورت میں ایک منشور بھی عطا کردیاہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ کسی “عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے “۔ یقیناً خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی، قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظرنہیں آتا۔ خطبہ حجۃ الوداع اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا معاشرتی نظام ترتیب پاتا ہے۔ اسی لیے، پشتون ، بعد از اسلام، پشتون ولی(پشتونوں کا ایک قدیم، قبل از اسلام ، موروثی، غیر تحریری ، سینہ بہ سینہ ، نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ، تہذیبی و جمہوری طرز کا روایتی ، قا نونی ، اخلاقی، سماجی، سیاسی، انتظامی اور ثقافتی اصول و ضوابط سے آراستہ معاشرتی نظام اور ضابطہء حیات ہے جسے عُرفِ عام میں ” پشتونوں کا طریقہ ” ، “پشتونوں کا معاشرتی طرزِ حیات” یا “پشتونوں کا معاشرتی ضابطہ ء حیات” بھی کہا جاتا ہے) کے ان اصول و ضوابط کی پیروی پر زیادہ ز ور دیتے ہیں جو کہ قرآن و سنّت اور شریعت کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ نے پہلے سے ہی ہمارے اتّحاد کے تمام لوازمات پورے کردیے ہیں، صرف اپنی تاریخ جاننے کی اور اپنی تنظیم کرنے کی ذمہ داری ہے جو کہ ہر فرد پر لازم ہے۔
——-
آسر اجمل کون ہے؟
محمّدآسر اجمل کے اپنے انٹرنیٹ پر دستیاب تعلیمی اور پیشہ وارانہ خلاصہ کے مُطابق ، موصوف نے امریکہ کے ایک نجی کالج ، ڈارٹموتھ کالج سے 1994 میں، نفسیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پچھلے کئی عشروں سے وہ امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کے مُختلف تعلیمی اداروں میں نفسیات کی تعلیم دیتے آرہےہیں۔ ان کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے۔ وہ لاہور میں مُقیم ہیں۔ وہ گٹار بجانے کے ساتھ ساتھ مُختلف زبانوں میں گانا بھی گا لیتے ہیں جس کا وہ عملی مظاہرہ، “مذاق رات” کے ایک پروگرام میں کرچکے ہیں۔
انہوں نے معروف سماجی ویب سائٹ، یوٹویب،کو 2011 میں جوائن کیا اورپچھلے ایک سال سے وہ اپنے یو ٹیوب چینل پر سودیشی نفسیات اور نفسیات کے دیگر موضوعات پر اپنی ویڈیوز وغیرہ بنا کر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوںانہوں نے پچھلے کچھ مہینوں سے اپنے یوٹیوب چینل پر پنجاب ، خصوصاً لاہور میں رہنے والی برادریوں، مثلاً راجپوت، بھٹی، آرائیں وغیرہ، پر ان کی ذات اوران کے نفسیاتی رویوّں پر مبنی ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی ویڈیوز میں پیش کردہ معلومات ان کے اپنے شعبے، یعنی نفسیات، جس میں نہ صرف انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے بلکہ کئی عشروں کا تجربہ بھی ہے، تک محددود رکھتے تومُناسب رہتا، لیکن ان کی ویڈیوز، برادریوں کے نفسیاتی رویّوں کا مُطالعہ کرنے سے بھی آگے بڑھ کر ان برادریوں کی اصلّیت کے بارے میں ، ان کی ذاتی آراء یا ایک مخصوص مُصنف یا برادری کے بارے میں شوقیہ طور پر لکھی ہوئی معلومات پر مبنی متنازعہ ویڈیوز بنتی جارہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے، مُختلف برادریوں، قوموں، قبیلوں، ذاتوں وغیرہ کی اصلیّت جاننے، تحقیق کرنے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام ماہر الانساب، مؤرخین اور ماہرِ بشریات کرتے ہیں، ماہرِ نفسیات نہیں، اس لیے آسر اجمل کا مُختلف برادریوں کے بارے میں اپنی ذاتی ذرائع سے ، یاسُنی سُنائی باتوں کی بُنیاد پر یا کسی کالم نگار کی لکھی ہوئی ایک مخصوص شہر کے اندر رہنے والے مُختلف برادریوں، قوموں، قبیلوں، ذاتوں وغیرہ پر کتاب یا کتابوں سے حاصل کردہ علم کی بنیا د پر، یا انگریزوں کا اپنے استعمار کوقائم رکھنے کے لیے مُختلف قوموں ، قبیلوں، ذاتوں وغیرہ پر لکھی ہوئی رپورٹس سے حاصل کردہ مواد پر مبنی شوقیہ اور متنازعہ ویڈیوز بنا کرپوسٹ کرنا ایک انتہائی افسوس ناک اور خطرناک امر ہے۔
آسر اجمل کا خودکس ذات یا برادری کے ساتھ تعلّق ہے؟
آسر اجمل اپنی ذات یا برادری کے حوالے سے اپنے آپ کو سّید مخدوم لکھتے ہیں یا تصوّر کرتے ہیں۔ اور بحیثیت ایک سیّد وہ بھول گئے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا کہ کسی “عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ ۔ یقیناً خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی، قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظرنہیں آتا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ سیّد اور مخدوم کے کیا معنی ہیں۔
سیّد (فارسی میں جمع: سادات/ عربی میں “سیّد ” کی جمع اسیاد یا سوائدہےاور سادات کا لفظ مستعمل نہیں ہے) کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو کہ، احتراماً ، ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓ بنت محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد سے ہیں۔ عربی میں ان کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات سُنّی اور شیعہ دونوں مسلکوں میں پائے جاتے ہیں ۔سادات کی بہت سی اقسام ہیں مثلاً حسنی سادات، حسینی سادات وغیرہ ۔ اور مخدوم ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “استادِ سُنتﷺ” ہیں۔ یہ جنوبی اور وسطی ایشیاء میں پیر (روحانی رہنما) کا ایک ٹائٹل یا عنوان بھی ہے۔ قرآن و سُنّت یا لغّتِ عرب میں سیّد ، مخدوم یا سیّد مخدوم بحیثیت ایک قوم یا ذات کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پریہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں بعض بزرگانِ دین اور اولیاء کرام کےمزاروں کے مجاور اپنے نام کے ساتھ سیّد مخدوم استعمال کرتے ہیں ۔مزید یہ کہ ایک ڈی-این -اے سٹدی نے اس بات کو واضع کیا ہے کہ برِّ صغیر پاک وہند کےسیّد کہلوانے والے افراد میں سے زیادہ تر تعداد خود ساختہ اور نام نہاد سیّد کی ہے۔ دیکھیے۔
تو آسر اجمل صاحب کو دوسروں کے بارے میں اپنی متنازعہ”تھیوریز” پیش کرنے سے پہلے اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ ان کی اپنی اصلیّت کیا ہے کیونکہ “سیّد مخدوم ” تو کوئی ذات ، قوم یا قبیلہ نہیں ہے۔
آسر اجمل نے کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں کس قسم کی متنازعہ”تھیوری” پیش کی ہے؟
“آزادیء اظہار، بدسلوکی کرنے کا ، دُوسروں کی توہین کرنے کا یا دلآزاری کرنے کا اجازت نامہ نہیں ہے۔ یہ ایک ذمّہ داری ہے”
——-
!ایک اہم اور ضروری نوٹ
آسر اجمل چُونکہ لاہور میں قیام پذیر ہیں اور ان کا موضوع ، ان کے اپنے الفاظ کے مُطابق ، پنجاب کے اور خصوصاً ، لاہور کے ککے زئی (ککےزئی، ککازئی ، کاکازئی محض مُختلف ہجےہیں ایک ہی قبیلہ کے نام کے۔ جیسے ترکانی، ترکانٹری، ترکلانی یاآفریدی، اپریدی، افریدی )تھے تو کیا ہی اچھّا اور مُنصفانہ ہوتا اگر وہ اپنی متنازعہ ویڈیوز اور اس میں اپنی شوقیہ ، بے بُنیاد، بغیر کسی تحقیق کے ، اور بلا کسی قسم کی تھیوری پیش کرنے کی دعوت کے اپنی “تھیوری” پیش کرنے سے پہلےپنجاب کے ایک قدیم گاؤں، سوہدرہ، کے کاکازئی، ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدروی(جو کہ پنجاب میں کاکازئیوں کی کئی صدیوں سے موجودگی کے باعث پشتو سے نابلد تھے) کی، ۱۹۳۳ء کے تناظر میں جب برِّصغیر میں ابھی تک انگریز موجود تھے، لکھی ہوئی کتاب” ہِدایتِ افغانی المعروف تاریخِ ککے زئی ترکانی “، فینسی اسٹیم پریس. وزیرآباد ۱۹۳۳ء سے استفادہ حاصل کرلیتے۔ گو کہ مُصنف نے اس کتاب میں پشتو سے نابلدی کی وجہ سے کچھ بُنیادی غلطیاں کی ہیں ، لیکن پھر بھی مُصنف نے اس وقت کے پنجاب کے کاکا زئیوں کو درپیش انگریزوں کے ساتھ معاملات پران کامدلّل دفاع کرنے کی بھر پور کوشسش کی ہے۔وہ کتاب آج بھی نہ صرف لاہور کے اردو بازار سے خریدی جاسکتی ہے بلکہ انٹرنیٹ پر درازڈاٹ پی کے پر بھی دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ آسر اجمل لاہور ہی میں موجود، پنجاب کے کاکازئیوں کی کئی عشروں پرانی ، تقسیم سے بھی پہلے کی ایسوسی ایشن، ککے زئی ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی مزید معلومات و تحقیق کے لیے رابطہ قائم کرسکتے تھے۔ یہ وہ بُنیا دی باتیں ہیں جو کہ ایک پی-ایچ- ڈی اسکالرسے توقع کی جاتی ہیں۔ صد افسوس کہ آسر اجمل نے، بحیثیت ایک معلم اور اسکالر ان بُنیادی باتو ں کا خیال بھی نہیں رکھّا۔
:ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدروی کے تعارف کے لیے دیکھیے
http://www.bio-bibliography.com/authors/view/10404
——-
آسر اجمل کی کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں متنازعہ تھیوری
سب سے پہلے ایک اہم اور افسوسناک بات جس کو واضع کرنابہت ضروری ہے، وہ یہ ہے، کہ آسر اجمل کو کسی نے بھی، کہیں سے بھی، پنجاب میں آباد کاکازئیوں کے بارے اپنی رائے پیش کرنے کی یا کسی قسم کی “تھیوری” پیش کرنے کی دعوت نہیں دی۔ یہ شوقیہ اور متنازعہ “تھیوری” انہوں نے خود ہی پیش کی، اپنا یوٹیوب چینل چلانے کے لیے، یعنی انہوں نے کاکازئیوں کو اور ان کے پس منظر یا تاریخ کو ایک کھیل اور مشغلہ سمجھتے ہوئے بطور ایک چارہ استعمال کیا ،تاکہ زیادہ سے زیادہ ویورز ان کے یوٹیوب چینل پر آئیں، اور اس طرح وہ سستی شہرت کے ساتھ ساتھ کچھ ٹکے بھی کما لیں۔ مصطفیٰ خاں شیفتہ کےبقول
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
آسر اجمل نے کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں اپنی متنازعہ”تھیوری” اپنی 3 یو ٹیوب ویڈیوز میں پیش کی ہے۔ان کا تجزیہ کرنےکےلیے، سب سے پہلے ان کی درج ذیل ویڈیوز میں سے صرف وہ اقتباسات لے کر پیش کیے گئے ہیں جو کہ انہوں نے کاکازئیوں کے بارے میں پیش کیے ہیں۔ چُونکہ باقی کا غیر متعلقہ مواد اس تجزیہ کا موضوع نہیں ہے، اس لیے ان کو اس تجزیہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ان کے اپنے تبصروں کے سکرین شاٹس پیش کیے گئے ہیں تاکہ قاری خود دیکھ لے کہ آسر اجمل اپنی ہی پیش کردہ معلومات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
Psychology & Punjabi Castes (Gujjar, Kakazai, Rajput & Syed) | Indigenous Psychology in Urdu/Hindi
Feb 7, 2019
https://www.youtube.com/embed/2DH7GofxR9o?start=640&end=841&version=3
ککے زئی کی بات کرتے ہیں، چُونکہ ککے لفظ کے ساتھ زئی کا لفظ لگتا ہےتو بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ قبیلہ ہےمگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ککے زئی نام کے ساتھ زئی اس لیے لگا، جوکہ پختون ٹائپ کا،قبیلہ لگتا ہے نہ آپ کونام سے؟ہے اس لیے نہیں، لیجینڈ یہ کہتی ہےکہ ہندو شخصیت تھی جو، کرن، کے نام ہے، اور کرن کا جو بڑا بیٹا تھا، اس کا نام تھا “ککّا” اور اس کی فیملی کہلائی ککے زئی۔ کرن رتھ چلاتا تھا۔گھوڑوں کا خیال رکھتا تھا۔رتھ کا خیال رکھتا تھا۔تو ککّا جو ہے، وہ بھی گھڑ سوار تھااور گھوڑوں کا خیال رکھتا تھا۔اور گھوڑوں کی خریدوفروخت کا کام بھی کرتا تھا۔تو اس لیے جو ککے زئی ہیں وہ گھوڑوں کے سوداگر ہیں اور چُونکہ گھوڑے لینے کے لیے اکثر، ککے زئی جو ہیں، یہ فیملی جو ہے،یہ وسطی ایشیاء تک جاتی تھی، افغانستان تک جاتی تھی، ایران تک جاتی تھی،مشرقِ وسطیٰ تک جاتی تھی، جا کے وہاں سے بہترین گھوڑےلے کر آتی تھی، تو وہاں پر، افغانستان میں، ایران میں، اپنا دیگر سوداگروں کے ساتھ تعارف کرانے کےلیے، جہاں دُوسرے قبائل تھے، یوسف زئی، یا اورکزئی وغیرہ، تو یہ کہتے تھے کہ ہم ککے زئی ہیں، اور یہاں سے جو یہ نام ہےپڑا،جو کہ پختون لگتا ہے، یہ وسطی ایشیاء کے کسی قبیلے کے نام کی طرح لگتا ہے لیکن، درحقیقت، یہ ایک بھارتی ذات ہے۔اور اچھّا بعض لوگ کہتے ہیں،کہ، میں نے کئی لوگوں سے یہ سنا ہے، کہ، ایک مضحکہ خیز سا دعویٰ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو تاریخ کی کوئی سُوجھ بُوجھ نہیں ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ ککے زئی سکھّوں سے آئے ہیں۔ اچھّا اب یہ کتنی فضول سی بات ہے،وہ اس لیے کہ سکھ اِزم جو ہے، وہ ابھی حال ہی کا مذہب ہے، اورککے زئی ایک بہت پُرانی ذات ہے۔تو یہ ہوسکتا ہےکہ ککے زئیوں میں سے بہت سےلوگ سکھ ہو گئے ہوں، اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے ہوں، اور بہت سے لوگ ہندو رِہ گئے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا، کہ جناب! ککے زئی ذات سکھوں میں سے نکلی ہو۔اس بات کو کوئی مطلب نہیں نکلتا۔۔۔۔۔ تو میں آپ کو ککے زئیوں کی مثال اس لیے دے رہا تھا کہ یہ ایک دلچسپ کیس اسٹڈی ہے ایک ذات کی ، کہ کس طرح، کئی ہزار سالوں سے، یہ ایک ذات جو ہے، اپنے اندر ہی بریڈ (نسل بنانا) کرتی رہی ہے، یعنی اس وقت آپ کو لاہور میں، گوجرانوالہ میں،سرحد کے اس پار، جالندھر، فیروز پور،ہوشیار پور،یہاں بہت سے ککے زئی آباد ہیں، جو ہزاروں سالوں سے، جنہوں نے کبھی اپنی ذات سے باہر شادی نہیں کی، اس جنریشن میں آکے ، ہوسکتا ہے، کہ بہت سے جو ہیں ، ککے زئی، مختلف ذاتوں میں شادیا ں کررہے ہوں، اس پہ میں تجویز کروں گا، مجید شیخ، جو بہت دیرسے کالم بھی لکھتے رہے ہیں، ان کی ایک کتاب بھی ہے، لاہور کے بارے میں اور لاہور کی ذاتوں کے بارے میں، جس میں انہوں نے ککے زئیوں کا بہت تفصیل کے ساتھ تعارف کروایا۔
مندرجہ بالا الفاظ ان کے اپنے الفاظ ہیں، جو کہ ان کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔ اگر بے ربط محسوس ہوتے ہیں ، تو ویڈیو دیکھ لیجیے۔ شکریہ۔
Punjabi Castes & Psychology | Arain, Kakazai, Rajput, Bhatti, Marasi, Kanjar and others
Dec 7, 2019
https://www.youtube.com/watch?v=80mk3o0CCYw&t=261s
ککے زئی بنیادی طور پر ہندوؤں کی ایک ذیلی ذات تھی ، جن کا تعلّق سُورج ونسی یا معروف سُورج کے خاندان سے تھا۔آپ مہا بھارت کتھا یا کہانی سے تو واقف ہوں گے جو کہ کروز (کروؤں) اور پانڈوز (پانڈوؤں)، جو کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے کزن تھے، کی آپس میں، اقتدار کےلیے، جنگ کی کہانی ہے۔ لیکن اس کہانی کے اندر بہت گہرے صوفیانہ حقائق موجود ہیں، اوراسی مہابھارت کتھاکاحصّہ ہے بھگوت گیتا، جوکہ ہندوؤں کی مذہبی اور مُقدّس کتاب ہے، لیکن آج کا مقصد اس مُقدّس کتاب کے بارے میں بات کرنا نہیں ہے بلکہ ککےزئی ذات کی اصلیّت کے بارےبات کرنا ہے۔ تو کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ایک شہزادی تھی جس کانام کُنتی تھا اور وہ ایک ہندوراجہ کی بیٹی تھی۔ اور ایک دفعہ ہندوؤں کے ایک پیر تھے جن کا نام تھا دُرواسا، اور دُرواسا کُنتی کے محل میں جب آئے، بادشاہ کو ملنے کے لیے، تو کُنتی نے ان کی بہت خاطر مدارت کی، کیونکہ کُنتی ایک بہت نیک بی بی تھی،اوراس نے اس درویش کی بہت خدمت کی، اور اس خدمت سے، وہ درویش، دُرواسا، اتنے خُوش ہوئے کہ انہوں نے کُنتی کو ایک تعویز دیا اور کہا کہ جب تم اس تعویز کواستعمال کرو گی تو وہ فرشتائی مخلوق جو سُورج کی نمائندگی کرتی ہیں، یا جو سُورج پرحکومت کرتی ہیں، ہندوازم میں اسے سُورج دیوتا بھی کہا جاتا ہے، آئے گی اور تمہیں اولاد کی بشارت دے گی۔تو کُنتی اس تعویز کو استعمال کرتی ہے اور سُورج دیوتا کوطلب کرتی ہے، سُورج دیوتا نمودار ہوتا ہے اور اس کو ایک اولاد دیتا ہے، جس کا نام، کہ وہ بعد میں کرن کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب چُونکہ کُنتی غیرشادی شُدہ تھی، اور اس نے اپنے تجسّس کی وجہ سے اس تعویز کو استعمال کرلیا تھا، تو اس کے پاس چارہ نہیں تھاکہ وہ بچّے کو ایک ٹوکری میں ڈال کردریا میں بہا دے۔ کرن کی جوایک خاص بات تھی کہ وہ ایک زره بکتر کے ساتھ پیدا ہواتھا، جو کہ اس کے جسم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، اور کانوں میں رنگز (بُندے) بھی، تو یہ کرن کے ایک بہت بڑے جنگجو ہونے کی نشانی تھی۔لیکن چُونکہ اس بچّے کو بہا دیا گیا اور وہ بچّہ کس نے دریافت کیا، جو بادشاہ کےلیے رَتھ بناتا تھا، اس کے گھر۔تو اس لیے کرن کو رَتھ بنانا، اس پر سواری کرنا تو وراثت میں ملا ہی تھا، اس کے علاوہ، وہ بہت اچھا گھُڑ سوار بھی تھا، اب کرن کی کہانی بہت لمبی اور آج میں کرن کی کہانی نہیں سنانا چاہ رہا،صرف اس بات پر زور دینا چاہ رہا ہوں کہ یہ ککےزئی کی کہانی کے ساتھ یا ککے زئی کی اصلّیت کے ساتھ کرن کا تعلّق کیا ہے۔ اب کرن کی شادی جو تھی، وہ ان کے جو مُنہ بولے باپ تھے، ادیرت،ان کے کہنے پر وروشالی نام کی ایک عورت کے ساتھ ہوگئی، اور اب وروشالی نے دو بچّوں کو جنم دیا، جن میں بڑے کا جو نِک نیم (عُرف یا عُرفیّت)تھا، وہ ککّا تھا۔ اب ککّا جو ہے، وہ نام ہے جس سے آگے ککے زئی پڑا اور کیسے پڑا ، اس کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ ذات سُورج ونسی کہلاتی تھی، کہ یہ سُورج کی عطا کی ہوئی بوند سے پیدا ہوا اورکرن کے آگے بیٹے کا نام ککّاتھا۔اب کرن کا بیٹا، ککّا جو ہے، ککے کی اولاد، چُونکہ کرن بھی گھوڑوں کا شوقین تھا اور وہ گھوڑوں کی پرورش بھی کرتا تھا، تو اس لیے ککّا جو ہے انہوں نے گھوڑوں کی تجارت کا پیشہ اپنایا اور کیونکہ گھوڑے بھارت میں، تھے،اس وقت، لیکن گھوڑے لائے جاتے تھے ،مشرقِ وُسطیٰ سے، مرکزی ایشیاء سے، افغانستان سے، کیونکہ یہاں (ان علاقوں) میں گھوڑوں کی پرورش کرنے والے لوگ بہت زیادہ تھے، اور گھوڑے قُدرتی طور پرمرکزی ایشیاء کے میدانی علاقوں میں ، اور مشرقِ وُسطیٰ کے میدانی علاقوں میں پائے جاتے تھے۔ تو جو یہ ککے کی اولا د ہے تو یہ گھوڑوں کی پرورش کرنے والے ہوگئے، پیشے کے اعتبار سے، اور پیشہ وارانہ طور پر،تو یہ تعارف، اپنے آپ کو، وہاں، ان علاقوں میں کراتے تھے، تووہ جب یہ پوچھتے تھے کہ آپ کا قبیلہ کیا ہے کیونکہ یہاں، مرکزی ایشیاء میں، ان علاقوں میں، قبیلے تھے، ذاتیں نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ سو اب یہ نام نہاد قبیلہ،جسے لوگ کہتے ہیں کہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے، اس کا مرکزی پیشہ گھوڑوں کی پرورش یا گھوڑوں کی تجارت تھا، گھوڑے خریدنا اور بیچنا۔ تو اپنے تعارف کے لیے چُونکہ افغان قبیلے، جیسے ہوتے ہیں نہ اورکزئی، اچکزئی تو اسی طرح انہوں نے اپنا تعارف کرایا ککے زئی۔ تو آپ ککے زئی آباد پائیں گے،دریائے سندھ کے مشرق اور مغرب کے علاقوں میں، آپ ککےزئی پائیں گے ، افغانستان میں، مرکزی ایشیاء میں، حتیٰ کہ مشرقِ وُسطیٰ میں۔ لیکن ایک بات بڑی واضح ہے، کہ ککےزئی شروع ہوتے ہیں، وہ علاقہ جات، جو کہ زیادہ تر پنجاب ہے اورمشرقی پنجاب میں ان کی سب سے بڑی بستیاں ہیں۔ کرن اور ککے کی جو اولاد ہے، اس کی بستیاں ہیں۔اور وہ صدیوں سے، بلکہ ہزاروں سال سے، انہی (مشرقی پنجاب) کے علاقوں میں ہیں، اور بعد میں جو بستیا ں بنتی ہیں، جالندھر ہے، ہوشیار پور ہے، خان پور ہے، گورداسپور ہے، ان سارے علاقوں میں ، بُنیادی طور پر، ارتکاز تھا، ککے زئیوں کا۔ س بہرحال آج کی جو ویڈیو تھی، اس میں، میں صرف اس بات پر زور دینا چاہتا تھا، کہ یہ جو اصلیت ہے ککے زئی کی، یہ کرن سے ہے، اور کرن جو ہے وہ سُورج ونچی ہیں اورسُورج ونچھی ہونے کے ناطے، یہ جو ذات ہے، یہ ایک اعلیٰ ذاتوں میں شُمار ہوتی ہے، یہ نچلی ذات نہیں ہے، جیسے جولاہا، یا کمہار،اور ایک اعلیٰ ذات ہونے کے علاوہ یہ ایک تجارت کرنے والوں کی ذات ہے، سوداگروں کی ذات۔ اور اس کی کچھ نُمایاں خوبیاں اور خصوصیات ہیں۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا الفاظ ان کے اپنے الفاظ ہیں، جو کہ ان کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔ اگر بے ربط محسوس ہوتے ہیں ، تو ویڈیو دیکھ لیجیے۔ شکریہ۔
Kakazai History | Castes of Punjab | Indigenous Psychology Urdu Hindi
Jun 9, 2019
https://www.youtube.com/embed/Dw9AjYMDyUE?start=565&end=757&version=3
اب بات کرتے ہیں ککےزئی کے بارے میں۔ ککے زئی، جیسا کے کہتا/بتاتا آرہا ہوں، کہ وہ میرے دل کے بہت قریب ہیں،اب لاہور کا جو کوچہ چابک سواراں ہے، اس میں یہ دو ذاتیں، چشتی اور ککے زئی ساتھ ساتھ رہے۔ اب یہ ساتھ ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا ہے، چشتی جو ہیں اسکالرز، پڑھانے کے شعبےکے ساتھ وابستہ رہے ہیں، زیادہ تر ، اورککے زئی جو ہو وہ بہت اچھے تجارت کرنے والے اور سوداگر ہیں، اور ان کا جو سوداگری کا نیٹ ورک ہے وہ مرکزی ایشیاء تک ہے، اور میں نے یہ آپ کے ساتھ شیئر کیاتھا کہ یہ جو” زئی” نام کے ساتھ لگانا ہے، اس کی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ ، ککے زئی، کیونکہ وہ گھوڑوں کی خریدوفروخت کا کام کرتے تھے، مرکزی ایشیاء سے، افغانستان سے، ایران سے، حتی کہ عریبیہ سے، اور بھارت میں لے کر آتے تھے، تاریخی اعتبار سے، کئی ہزار سال سے وہ یہ کام کررہے ہیں، تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا، تو وہ ان علاقوں کے لوگوں کے ساتھ کاروباری بات چیت کے لیے، جہاں پہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم یوسف زئی ہیں،یا ہم اورکزئی ہیں، تو یہ کہتے تھے کہ ہم ککےزئی ہیں۔لیکن بنیادی طور، جیسا کہ اس کی تحقیق کی جاچکی ہے،مُختلف ؐمحققوں نے، وہ یہ کہتے ہیں کہ “ککّا” جو ہے، روایتی طور پر، کہانی یہ ہے،کہ کرن، مہابھارتا سے،کرن کی اولاد “ککّا” کی آگے اولادککے زئی کہلاتی ہے،اور ان کابنیادی پیشہ گھوڑوں کی تجارت اور گھوڑوں کی پرورش کرنا ہے، اور اس بات کا ثبوت، مجید شیخ، جو کہ لاہور پر لکھتے ہیں، تاریخ دان ہیں،اور ماہر ہیں،خصوصی طور لاہور سے متعلق موضوعات پر،تو وہ اپنے کالمز میں لکھتے رہے ہیں، پچھلے کئی عشروں سے، اور ان کابھی یہی خیال ہے کہ ککے زئی گھوڑوں کے سوداگرتھے۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا الفاظ ان کے اپنے الفاظ ہیں، جو کہ ان کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔ اگر بے ربط محسوس ہوتے ہیں ، تو ویڈیو دیکھ لیجیے۔ شکریہ۔
آسر اجمل کی متنازعہ تھیوری کا تجزیہ
اگر آپ نے اس پیرگراف تک پہنچنے سے پہلے مندرجہ بالا موّاد ا، اُردو اور انگریزی میں، توجّہ اور غور سے پڑھ لیا ہے ،مع تبصروں کے، تو اُمّید ہے کہ آپ پر یہ بات واضع ہو چکی ہو گی کہ آسر اجمل اس بات کا کہیں براہِ راست اور کہیں بالواسطہ ، دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس بات کا اعتراف کرچُکے ہیں کہ ان کی کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے بار ے میں پیش کردہ متنازعہ “تھیوری” بے بُنیاد اور غلط ہے۔ آسر اجمل کے بار ے میں یہ بات بھی درُست ہے کہ ان کو پشتو نہیں آتی اور نہ ہی انہوں نے اپنی متنازعہ”تھیوری” پیش کرنے سے پہلےپشتونوں کی تاریخ کے بارے میں یا پنجاب کے کاکازئیوں کی تاریخ کے بارے میں کوئی کتاب، مثلاً پیر معظم شاہ کی کتاب “تواریخِ حافظ رحمت خانی: افغان قبائل اور ان کی تاریخ” ، خان روشن خان کی کتاب “تذکرہ: پٹھانو ں کی اصلیّت اور ان کی تاریخ” پنجاب کے کاکازئی ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدروی کی کتاب” ہِدایتِ افغانی المعروف تاریخِ ککے زئی ترکانی” وغیرہ، پڑھی اور نہ ہی لاہور ہی میں موجود، پنجاب کے کاکازئیوں کی کئی عشروں پرانی ، تقسیم سے بھی پہلے کی ایسوسی ایشن، ککے زئی ایسوسی ایشن کے ساتھ مزید معلومات و تحقیق کے لیے رابطہ کیا۔کیونکہ مقصد کاکازئیوں کو آسان نشانہ سمجھتے ہوئے نہ صرف ان کو متنازعہ بنانا تھا بلکہ ان کو چارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے یوٹیوب چینل کے ویوز بھی بڑھانے تھے، سستی شہرت کے ساتھ ساتھ کچھ ٹکے کمانے کے لیے۔
اگر غور کیا جائے تو آسر اجمل کی “تھیوری کابُنیادی مآخذ پہلے تو مجید شیخ ہیں، جو کہ روزنامہ ڈان کے لیے لاہورکے مُتعلق انگریزی میں لکھتے ہیں، کے کالم ہیں اورلاہور کے متعلق ان کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے جیسا کہ آسر اجمل اپنی پہلی ویڈیو (” میں تجویز کروں گا، مجید شیخ، جو بہت دیرسے کالم بھی لکھتے رہے ہیں، ان کی ایک کتاب بھی ہے، لاہور کے بارے میں اور لاہور کی ذاتوں کے بارے میں، جس میں انہوں نے ککے زئیوں کا بہت تفصیل کے ساتھ تعارف کروایا۔”)اورتیسری ویڈیو (“،کرن کی اولاد “ککّا” کی آگے اولادککے زئی کہلاتی ہے،اور ان کابنیادی پیشہ گھوڑوں کی تجارت اور گھوڑوں کی پرورش کرنا ہے، اور اس بات کا ثبوت، مجید شیخ، جو کہ لاہور پر لکھتے ہیں، تاریخ دان ہیں،اور ماہر ہیں،خصوصی طور لاہور سے متعلق موضوعات پر،تو وہ اپنے کالمز میں لکھتے رہے ہیں، پچھلے کئی عشروں سے، اور ان کابھی یہی خیال ہے کہ ککے زئی گھوڑوں کے سوداگرتھے۔۔۔۔۔”) میں دہرا چکے ہیں۔
تو آسر اجمل کو یہ بات اس کی تیسری ویڈیو کے تبصرے (اوپر دیکھیے) میں ، مع ثبوت کے باور کروائی جا چکی ہے، کہ مجید شیخ نے اپنے 2004 میں لکھے ہوئے کالم کے مؤقف کو ، جس میں انہوں نے لاہور کے کوچہ چابک سواراں کے رہنے والےککے زئیوں کی “اصلیّت” کے بارے میں لکھّا تھا کہ “ایک ذریعہ نے ان کی اصلیت روس کے سخت کوسیکس بتائی ہے جو 600 سال قبل ترک حملہ آوروں کے ساتھ لاہور آئے تھے”، اپنے2017 کے لکھے ہوئے کالم کےمؤقف، “”دی پٹھانز، میں مشہور مصنف اولیف کیرو ئے کا اپنی کتاب “دی پٹھانز – 550 قبل مسیح سے 1957 تک “، میں دعوی ہے کہ ککے زئیوں کا تعلق ترکانی قبیلے کے لوئی ماموند سے تھا جو باجوڑ ایجنسی میں آباد تھے ، لیکن اصل میں اس کا تعلق افغانستان کے صوبہ لغمان سے تھا۔ پہلا کاکا زئی گروہ 1011 اور 1021 ء کے درمیان محمود غزنی کی حملہ آور افغان افواج کے ہمراہ پنجاب آیا تھا۔”سرحدی عوام” کی تھیوری، کہ جب ایک بنجر علاقے میں قبیلے کی آبادی اس زمین کی استطاعت سے بڑھ جاتی ہے تو ان میں سے کاروبار ی حضرات مشرق کی طرف بڑھ جاتے ہیں، جیسا کہ وہ آج بھی جنگوں کی وجہ سے کرتے ہیں، کی سمجھ آتی ہے کہ آج بھی پرانے شہر میں اصل باشندوں کی آبادی میں زیادہ تر پٹھان آباد ہیں۔ لہذا اگر کوئی یہ فرض کرلے کہ ان پٹھانوں میں کچھ پہلے سے ہی پنجاب منتقل ہو چکے تھے تو یہ بالکل درست ہے کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ محمود غزنوی کے ساتھ کاکازئیوں کا ایک بڑا گروہ آکر یہاں (پنجاب) میں آباد ہواتھا۔” سے بدل دیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مجید شیخ نے اپنے مؤقف کی تصیح، گو کہ 13 سال کے طویل عرصہ کے بعد کی، لیکن کم از کم کی تو سہی لیکن بدقسمتی سے آسر اجمل نے مجید شیخ کے پرانے مؤقف کو استعمال کرتے ہوئے اس پر پنجاب ، خصوصاً لاہور کے کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے کرن سے ککے اور ککے سے ککےزئی بننے کی من گھڑت، فرضی اور ایک تخیّلاتی کہانی بھی گھڑ لی۔ جہاں تک پنجاب کے کچھ کاکازئیوں کا گھوڑوں کی تجارت یا پرورش کرنے کے پیشہ کے ساتھ تعلق کی بات ہے تو گھوڑوں کا ذکر قرآنِ کریم میں بھی آیا ہےاور نہ صرف گھوڑے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کو پسند تھے بلکہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھانے میں کوئی شرم والی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی سُنّت بھی ہے۔البتہ یہ کہنا کہ “لوگوں کے ساتھ کاروباری بات چیت کے لیے، جہاں پہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم یوسف زئی ہیں،یا ہم اورکزئی ہیں، تو یہ کہتے تھے کہ ہم ککےزئی ہیں” تو یہ تمام ککے زئیوں کے ساتھ ساتھ دیگر پشتون قبائل کو، یوسف زئی، اورکزئی وغیرہ کوبھی محض ایک پیشہ یعنی گھوڑوں کی پرورش اور تجارت کے ساتھ وابستہ کرنا فرض کرتا ہے، جو کہ بالکل بھی بے سروپا اور غیر منطقی سی بات ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قبیلے کے تمام لوگ محض ایک ہی پیشے کے ساتھ وابستہ ہوں۔1884 میں شائع ہونے والی ، کنھیا لال کی کتاب “تاریخِ لاہور” کے مُطابق لاہور کے ککے زئی مسلمان نہ صرف کتابوں کی اشاعت کے کاروبار(پرنٹنگ پریس) میں تھے بلکہ خدا بخش ککےزئی سالہا سال تک لاہور کا کوتوال بھی رہا۔
اور سلسلہ چشتیہ کے چشتی یا چشتیوں کو ، جو کہ فقراء اور درویشوں کا مسلک و سلسلہ ہے، کو ایک ذات سمجھنا یا بنا کر پیش کرنا بھی بہت ہی عجیب بات ہے۔
آسر اجمل کا دوسرا مآخذ، ان کے اپنے الفاظ کے مُطابق، ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن کی کتابیں ہیں،”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” ، ڈینزل ایبیٹسن کی کتاب، “پنجاب کی ذاتیں“، جوکہ 1883 کی مردم شماری کی رپورٹ میں اشاعت شدہ باب،”لوگوں کی نسلیں، ذاتیں اور قبائل” کی کتابی شکل میں دوبارہ اشاعت تھی۔
برطانوی استعمار نے اپنے برصغیر کے برطانوی راج دور میں، برطانوی سول افسران کے ہا تھوں اپنے استعمار کو قائم رکھنے کے لیے 1865، 1872، 1881 اور 1883 میں مردم شماری کرائی ۔اور ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن، جو کہ برطانوی راج کے اعلیٰ سول افسران میں سے تھے، ان کی کتابیں، “صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” ، ڈینزل ایبیٹسن کی کتاب، “پنجاب کی ذاتیں“، جوکہ 1883 کی مردم شماری کی رپورٹ میں اشاعت شدہ باب،”لوگوں کی نسلیں، ذاتیں اور قبائل” کی کتابی شکل میں دوبارہ اشاعت تھی ،و ہ بُنیادی طور پر مردم شماری کی رپورٹس پرمشتمل تھی۔ اسی لیے وہ ایک دوسرے کی نقل کرتی ہیں ۔ ڈینزل ایبیٹسن کے اپنے الفا ظ میں”ہم جن لوگوں کے مابین رہتے ہیں ان کے رسم و رواج اور اعتقادات سے ہماری لاعلمی یقینا ًکسی حد تک ہماری لعنت ہے۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ جہالت یوروپی سائنس کو اس مادے سے محروم رکھتی ہے جس کی اسے بہت زیادہ ضرورت ہے ، بلکہ اس میں خود کو انتظامی طاقت کا ایک الگ نقصان بھی شامل ہے۔”
برطانیہ کی ایڈینبرا یونیورسٹی میں جدید اور معاصر جنوبی ایشیائی تاریخ کے پروفیسر کرسپن بیٹس کی اپنی ایک کتاب کے مطابق، جس کا موضوع مردم شماری کی رپورٹس ہیں،” برصغیر میں اب تک کی جانے والی کم سے کم تشکیل شدہ مردم شماری کی رپورٹس ، ایک پرنٹر کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ، چونکہ آبادی کو پہلے سے طے شدہ زمرے میں فٹ ہونے کے بجائے مردم شماری کرنے والوں نے مذہبی عقائد اور پیشوں کے بارے میں نسبتاً کھلے سوالات پوچھے تھے۔ نتیجہ خاص طور پر پیشوں سے متعلق کالموں کا پھیلاؤ تھا۔ افراد ‘کون مین ‘ ، ‘دلال’ ، ‘فاحشہ’ ، ‘بیوقوف’ اور ‘چور’ کے طور پر نمودار ہوئے ۔۔۔۔ بدترین بات یہ ہے کہ ، ذاتوں اور قبائل کے بارے میں یہ درج تھا کہ آیا وہ ‘دشمنی’ ، عیسائی ، ہندو یا محمدڈین تھے ، جواب دہندگان کی خود نمائندگی سے ہٹ کر بہت کم ڈھانچہ یا نظام کے حامل ہیں۔”
” مزید یہ کہ برطانوی راج کےافسران نے جو طریقے کار اپنائے اس “[قبضے کے لحاظ سے درجہ بندی] نے نہ صرف ہندوستانی آبادی میں نسلی اختلاط ، اور معاشی اور معاشرتی حیثیت میں تبدیلی کے امکانات کے بارے میں غیرمساواتی طور پر مساویانہ نتائج کے امکانات اور ہندوستانی معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں نسل پرستانہ خیالات سےبھی براہ راست متصادم ہونے کی اجازت دی۔ اس وقت تک منتظمین کے ذہنوں میں ایک ایسی نسل سے زیادہ کی تاریخی تصنیف کی تصدیق ہوچکی تھی۔ جواب میں ایک نیا طریقہ ڈھونڈنا تھا جو سائنسی اعتبار سے اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اب متعصبانہ تعصبات کیا ہیں۔”
ڈینزل ایبیٹسن نے”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبائلیوں اور ذاتوں کی ایک لغت – ایل زیڈ – جلد 3” کے صفحہ 219 پر پٹھانوں کی تفصیل کے بارے میں لکھا ہے کہ “سچّا پٹھان شاید سب سے وحشی ہے وہ ساری نسلیں جن کے ساتھ ہم پنجاب میں رابطے میں آئے ہیں۔ اس کی زندگی خانہ بدوش قبائل کی طرح قدیم نہیں ہے۔ لیکن وہ خونخوار ، ظالمانہ ، اور اعلی درجے میں ثابت قدم ہے۔۔۔۔ “
پشتونوں اور برصغیر کی دیگر قوموں، قبیلوں ، ذاتوں اور نسلوں کے بارے میں اس قسم کا تعصب رکھتے ہوئے، ڈینزیل ایبٹسن اور اس کے ہم وطنوں نے اپنی کتابوں کو،مردم شماری کی رپورٹس کو اور دیگر اشاعتی مواد کو اپنے پسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ دینے والی) اور ناپسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ نہ دینے والی) قوموں، قبیلوں ، ذاتوں اور نسلوں کو جزا اور سزا دینے کےلیے استعمال کیا اور اس طرح سائنسی نسل پرستی اور تعصب کی ایک نئی شکل کو جنم دیا۔اور اسی سائنسی نسل پرستی، تعصب ، ‘چھڑی اور گاجر’ اور ‘تقسیم اور فتح کی حکمت عملی’ کو استعمال کرتے ہوئےبرطانوی شاہی ایجنڈے کی بھرپور خدمت کی۔ وہ قبائل، اقوام، ذاتیں اور نسلیں جو ناپسندیدہ (برطانوی راج کے استعمار کا ساتھ نہ دینے والی) قرار پائیں اور ان کو سرکاری دستاویزات (مردم شماری رپورٹس وغیرہ ) میں ان کی سزا کے طور پر غلط کالم میں لکھا گیا یا ان کی غلط درجہ بندی کی گئی ان کو سرکاری دستاویزات میں اپنی تاریخ اور نسل کی اصلاح کروانے میں کئی دہائیاں لگ گئیں ، مگر وہ برطانوی استعمار کی اس زیادتی ،بدعنوانی اور جان بوجھ کر غلط درجہ بندی کی آزمائش میں(مثلاً پشتون اپنے پشتون ورثے پر اصرار کرتے ہوئے اپنی اصلیّت پر ڈٹے رہے) ،لیکن جو نقصان برطانوی استعمار ان کو نقصان ان کو پہنچا چکا تھا اس کی بازگشت آج ، جب کہ برطانوی استعمار کو برصغیر پاک و ہند چھوڑے کئی عشرے بیت چکے ہیں، بھی سنائی دیتی ہے۔
پنجاب کےکچھ کاکازئی پشتونوں (اس وقت ان کو افغان کہا جاتا تھا کیونکہ وہ افغانستان سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے)، جو کہ پنجاب میں 1121 ء سے بھی پہلے کے آباد ہیں اور برصغیر میں محمود غزنوی، بہلول لودھی کی افواج کے ساتھ دیگر پشتون قبائل ، نیازی ، برکی ، یوسف زئی وغیرہ، کے ساتھ آئےتھے، کے ساتھ برطانوی استعمار نے جوکچھ کیا اس کی داستان کچھ یو ں ہے کہ کلوار/کلوڑ/کلواڑ (یا کالال، کَلال ، کلر) ایک ہندوستانی ذات ہے جو تاریخی طور پر اترپردیش ، راجستھان ، پنجاب ، ہریانہ ، اور شمالی اور وسطی ہندوستان کے دیگر حصوں میں پائی جاتی ہےاور موروثی و روایتی طور پر شراب کی آسون سے وابستہ ہے ، لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں مختلف کلواڑ ذات کی تنظیموں نے اس تجارت کو چھوڑنے اور اپنی برادری کی نئی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔چونکہ شراب کشید کرنے اور بیچنے کےپیشے ، جس پر ان کا قبضہ تھا، کو ہتک سمجھا جاتا تھا ، لہذا جنوبی ایشیا میں روایتی ذات پات کے درجات میں ان کو بہت کم درجہ حاصل تھا۔ ان میں سے کچھ نے سکھ اِزم (جو کہ ایک اسلام کے مقابلے میں ایک نیا مذہب ہے۔ جب کہ پشتون قیس عبدالرشید کے زمانے سے مسلمان ہیں۔)اور کچھ نے اسلام قبول کر لیا۔
سکھ کلالوں کی صورتحال اس وقت بدلی جب 18 ویں صدی میں ان کے سربراہ(پشتون قبائل میں سردار یا سربراہ وغیرہ نہیں ہوتے) جسا سنگھ سیاسی اقتدار میں شامل ہوئے۔ جسا سنگھ نے اپنے آبائی گاؤں، اہلو، کے نام پرخود کو اہلووالیہ کے طور پر اسٹائل کیا ، اور ریاست کپور تھلہ میں حکمران خاندان قائم کیا۔ جسا سنگھ کے عروج کے بعد ، دوسرے سکھ کلالوں نے بھی اہلوالیہ کو اپنی ذات کے نام کے طور پر اپنایا ، اور اپنا موروثی و روایتی پیشہ ترک کرنا شروع کردیا۔ نوآبادیاتی برطانوی انتظامیہ کی طرف سے شراب کی تیاری اور فروخت پر عائد ضابطوں نے اس عمل کو اورتیز کردیا ، اور 20 ویں صدی کے اوائل تک ، زیادہ تر کلالوں نے اپنا موروثی و روایتی پیشہ ترک کردیا تھا۔ اس وقت تک ، اہلوالیوں نے اپنی سماجی حیثیت کو بڑھانے کے لئے کھتری یا راجپوت ہونے کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا تھا۔انگریزوں کی حکمرانی کی آمد سے قبل ، وہ کلال جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، اپنے سکھ کلال برادری کی پیروی میں ، پنجاب میں پہلے سے کئی صدیوں سے موجود ککے زئی پشتونو ں کی پشتون شناخت کو اپنا کر اپنے معاشرتی مقام کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ پہلے کلال سے بنے ککےزئی ، جیسے ہوشیار پور خاندان ، جس نے 1840 میں جالندھر دوآب پر حکمرانی کی ، پھر انہوں نے اعلیٰ ذات کے شیخ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی حیثیت میں مزید اضافہ کیا۔ الٰہ آباد میں کلال، 1890 کی دہائی میں، خود کو کشتریائی حیثیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔
ان عشروں میں جب برطانوی راج کے شمال مغربی صوبے (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں موجود پشتون قبائل، صوبے کے مختلف حصّوں میں ، انگریزی استعمار کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑرہے تھے ، جن میں باجوڑ کی وادیء ماموند(جو کہ کاکازئی پشتونوں کے والدِ محترم ، ماموند، کے نام پرہے، اس کا قدیم نام وتلائی وادی ہے۔) کےماموند، کاکازئی( لوئی ماموند) قبیلے اور اس کے چھوٹے بھائی ، واڑہ ماموند قبیلے کے لوگ بھی شامل تھے ، جن کی بہادری کے لمحوں کو ونسٹن چرچل نے اپنی کتاب” دی اسٹوری آف مالاکنڈ فیلڈ فورس” کےصفحہ 274 پر کچھ ان الفاظ میں قلمبند کیا ہے،” … وادیء ماموند کے لوگوں کی ہمت،ٹیکٹیکل (جنگی تدبیر) کی مہارت اور ان کی اپنے ہتھیاروں سے بالکل صحیح نشانے بازی کی مہارت، جس کے لیے وہ مشہور ہیں اور جس کا ہمارے ساتھ لڑائی میں انہوں نے بھر پور مظاہرہ بھی کیا ہے، کا ان کوانکار کرنا ناانصافی اور ناجائز بات ہوگی ۔ اس غیر معینہ مدت میں، ہمارا مقابلہ جس طرح انہوں نے کیا ، بربریت کی بے ہنگم آغوش میں جنگ کی اور ہماری تہذیب کو دیر تک دھچکا مارا، تو ہماری تہذیب بغیر کسی ردوکد کے اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ وہ ایک بہادر اور جنگجو نسل کے لوگ ہیں۔ان کا نام، اس مصروف صدی میں بھی ،ہمارے مردوں کے ذہن میں کچھ سالوں تک رہے گا ، اور انگلینڈ میں ایسے کنبے موجود ہیں جو انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے۔”،
ڈینزل ایبیٹسن اور اس کے ہم وطن برطانوی سول افسران نے اپنی کچھ مردم شماری کی رپورٹس میں ، مسلمان ہونے والے کلالوں کو، پنجاب میں کئی صدیو ں سےمُقیم کاکازئی پشتونوں کےساتھ ، نہ صرف اپنی رپورٹس کے کالمز میں لکھ دیا بلکہ ان (ککےزئی پشتونوں )کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ یہ پہلے کلال تھے اوربعد میں مسلمان ہوئے ، حالانکہ بعد میں کلال سے”ککے زئی “بننےوالےکوئی اور تھے۔یہی غلطی ، بہت ساری غلطیوں میں تبدیل ہوئیں جب ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن نے اپنی کتابوں،”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” ، ڈینزل ایبیٹسن کی کتاب، “پنجاب کی ذاتیں”، جوکہ 1883 کی مردم شماری کی رپورٹ میں اشاعت شدہ باب،”لوگوں کی نسلیں، ذاتیں اور قبائل” کی کتابی شکل میں دوبارہ اشاعت تھی ،وغیرہ ، میں اور دیگر مُصنفوں نے ، جنہوں نے ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن کی مردم شماری کی رپورٹس اور کتابوں کو حرفِ آخر اور غلطیوں سے مُبرّاسمجھتے بغیر کسی مزید تحقیق کے اپنی کتابوں میں دہر ا دیا۔
ایک اہم ،قابلِ ذکر اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن نے “صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبائلیوں اور ذاتوں کی ایک لغت – ایل زیڈ – جلد 3” کے صفحہ249-250 میں اور ڈینزیل ایبیٹسن نے اپنی کتاب “پنجاب کی ذاتیں” کے صفحہ 70-71 اور 86-80 پر کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے دادا، ترکلانڑی(ترکانی یا ترکلانی)کا نہ صر ف ذکر کیا ہے بلکہ اپنی طرف سے ایک عدد شجرہ ، گو کہ غلط، بھی شائع کیا ہے، گویا کہ پنجاب کے ککے زئی پشتونوں کوبالواسطہ پشتون یا افغان(اس وقت پٹھانوں کے استعمال کردہ لفظ) اپنی انہی کتابوں میں ، پہلے کچھ اور لکھ کر، بعد میں تسلیم بھی کیا ہے ۔
—
اگر صرف پنجاب کے کاکازئیوں کی بات کی جائے تو برطانوی راج کے دور میں شائع ہونے والی درج ذیل کتابیں ان کی موجودگی کو تسلیم کرتی ہیں
“Handbook of the Manufactures And Arts of the Punjab – With A Combined Glossary And Index of Vernacular Traders and Technical Terms, &c., &c. – Forming Vol. II – To The “Handbook of The Econocim Products of the Punjab” – Prepared Under the Order of Government by Baden Henry Baden-Powell (H. M. Bengal Civil Service)” – Page 78 and 79
Acknowledges Kakazai Traders in Sialkot (spelled as ‘Sealkot’) and as far as Peshawar
(Originally Published in 1872)
“Customary Law of the Gujrat District” – Volume IX – by Captain H. Davies (Settlement Officer) – Page 2
Acknowledges of the Kakazai Tribe in Gujrat, Kharian and, Phalia
(Originally Published in 1892)
“The Cyclopædia of India and of Eastern and Southern Asia” – by Edward Balfour (Page 655) – Originally Publish in 1885 ::
Acknowledges the Kakazai Pashtuns in Lahore
“Report of the Commissioners Appointed by the Punjab Sub-Committee of the Indian National Congress, Indian National Congress. Punjab Subcommittee” – Volum II – Evidence – Page 290, 291, 292 and more
Acknowledges Kakazai, Kucha Kakazaian and Kakazaian Street in Lahore
(Originally Published in 1920)
“Tribal Law in the Punjab – So Far As It Relates To Right In Ancestral Land” – by Charles Arthur Roe (Senior Judge of the Chief Court of the Punjab) and H. A. Rattigan (Barrister At Law of Lincoln’s Inn) :: Page 46, 68, 75 – Acknowledges the Kakazai in Sialkot, Pasrur and other places (Originally Published in 1895)
“The Afghan nobility and the Mughals: 1526-1707” – by Rita Joshi – Page 9 – Vikas Publ. House, New Delhi, India. ISBN 978-0706927528.
کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے متعلق مزید پشتو، اردو اور انگریزی میں کتابوں کے نام اور ان کے حوالہ جات اس لنک پر دستیاب ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں ، مع کچھ دیگر پشتون قبائل کے ،نہ صرف ڈی-این-اے اسٹدی ہو چکی ہے بلکہ پنجاب کے کاکازئی پشتونوں کے پس منظرکا ذکر پشاور یونیورسٹی کے ایک پی-ایچ-ڈی مقالے میں بھی ہو چکا ہے۔
بہرحال اس غلطی کو سرکاری دستاویز ات میں درُست کروانے کے لیے پنجاب کے کاکازئیوں نے عدالتوں کارُخ کیا اور بالآخر اس کو درُست کروایا۔ اس تمام جدو جہد کی داستان کے کردار، وہ کاکازئی اشخاص جنہوں نے برطانوی راج کے برطانوی استعمار کے کارندوں کی عدالتوں میں اپنا حق لینے کی جنگ لڑی ،تو زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی اولادیں آج بھی اپنے بزرگوں کی جدوجہد کی گواہی دینے کے لیےپنجاب میں موجود ہیں۔مزید اس کا کچھ ریکارڈ آج بھی لاہور کی کاکازئی ایسوسی ایشن، جوکہ پاکستان اور پنجاب میں موجود قیام ِ پاکستان سے بھی پہلے کی ایسوسی ایشن ہے، میں موجود ہے۔ اس جدو جہدکی داستان کے کچھ حصّوں کو ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدروی(جو کہ پنجاب میں کاکازئیوں کی کئی صدیوں سے موجودگی کے باعث پشتو سے نابلد تھے) نے اپنی ” ہِدایتِ افغانی المعروف تاریخِ ککے زئی ترکانی “، فینسی اسٹیم پریس. وزیرآباد ۱۹۳۳ء میں قلم بند کیا ہے۔ مگراس غلطی کی بازگشت آج بھی، جب برطانوی راج کا سُورج غروب ہوئے کئی عشرے گذر چکے ہیں، کبھی کبھار ، اپنوں سے ، جیسے آسر اجمل کی ویڈیوز میں، یا غیروں سے (مثلاً کتابوں ، ویڈیوز وغیرہ میں) سنائی دے جاتی ہے۔
خلاصہ
“Your Liberty To Swing Your Fist Ends Just Where My Nose Begins.”
مندرجہ بالا پیرا گرافس پڑھنے کے بعد اور تمام حوالہ جات دیکھنے کے بعد، اُمید ہے، کہ یہ بات واضع ہوگئی ہوگی کہ یہ پنجاب کے کاکازئی /ککے زئی نہیں ہیں جنہوں نے “ہم افغان (پٹھان/پشتون/پختون) ہیں” کاافسانہ گھڑا ہے بلکہ یہ آسر اجمل خود ہیں جنہوں نے پنجاب کے کاکازئیوں کے بارے میں ، اپنے توسنِ تخّیل کو استعمال کرتے ہوئے، کرن سے ککے تک اور پھر ککے سے ککےزئی یا کاکازئی کے ہندو ہونے کامن گھڑت افسانہ گھڑا ہےجس کی نہ توکوئی حقیقت ہے اور نہ ہی کوئی منطق ۔کسی بھی مسلمان کے لیے “ہم افغان ہیں”، “ہم عرب ہیں ” وغیرہ سے زیادہ یہ بات قابلِ اعزاز و تشکّر ہونی چاہیے کہ اللہ تبارک تعالی ٰ نے انہیں اُمّتِ محمدیﷺمیں پیدا فرمایا ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کاکازئی(لوئی ماموند) پشتونوں کے بارے میں ، مع کچھ دیگر پشتون قبائل کے ،نہ صرف ڈی-این-اے اسٹدی ہوچکی ہے بلک پنجاب کے کاکازئی پشتونوں کے پس منظرکا ذکرپشاور یونیورسٹی کے ایک پی-ایچ-ڈی مقالے میں بھی ہو چکا ہے۔ تمام زمینی حقائق، پشتونوں کے جدِ امجد، قیس عبدالرشید کی قبر، دارازندہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں، کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے والدِ امجد ، ماموند(جن کا اصل نام محمود تھا) کی قبر، موضع داگ ، باجوڑ میں، پشتو بولنے والے کاکازئیوں کا آج بھی افغانستان اور خیبر پختونخواہ کے مُختلف علاقوں میں موجود ہونا، کے ساتھ ساتھ دستاویزی حقائق، ڈینزل ایبٹسن، ہوریس آرتھر روز (ایچ۔ اے ۔روز) اور ایڈورڈمیکلیگن کا”صوبہ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی قبیلوں اور ذاتوں کی ایک لغت” کے صفحہ249-250 میں اور ڈینزیل ایبیٹسن کااپنی کتاب “پنجاب کی ذاتیں” کے صفحہ 70-71 اور 86-80 پر کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کے دادا، ترکلانڑی(ترکانی یا ترکلانی)کا نہ صر ف ذکرکرنا بلکہ اپنی طرف سے ایک عدد شجرہ ، گو کہ غلط، بھی شائع کرنا ، گویا اپنی ہی لکھی ہوئی بات کی خود نفی کرنا، دیگر برطانوی راج کے مصنفوں کا پنجاب میں کاکازئی پشتونوں کی کئی صدیوں سے موجودگی کا اپنی کتابوں میں ذکر کرنا ، اس کی تینوں ویڈیوز پر تبصرے کرنے والوں کا ان کو بار بار بتانا کہ وہ غلط ہیں وغیرہ سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آسر اجمل واقعی اور فی الحقیقت نہ صرف ہر اعتبار سے غلطی پرہیں بلکہ ان ویڈیوز کو اپنے یوٹیوب چینل پر دانستہ طور پر رکھ کر دُنیا (بشمول پنجاب، خیبر پختونخواہ، پاکستان،افغانستان) میں بسنے والے تمام کاکازئیوں اور مجموعی طور پرتما م پشتونوں کی علی الاعلان تضحیک و تذلیل کررہے ہیں۔ اب یہ آسر اجمل ہی جانتے ہیں کہ یہ ان کی پی ۔ایچ۔ڈی کا خُمار ہے یا برطانوی شہریت کا غرور، یہ ان کی انا پرستی ہے یا سستی شہرت کی ہوس جو ان کو تمام تر حقائق جاننے کے باوجود اپنی من گھڑت ویڈیوز اپنے یوٹیوب چینل سےہٹانے نہیں دے رہی۔ وہ جو بھی ہے، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سچ ہمیشہ اور بالآخرفتح مند اور غالب ہوتا ہے۔
© www.kakazai.com
#asirajmal #Psychology #psychotherapy #asirajmal, #Psychology, #psychotherapy, #hypnotherapy, #psychotherapy
Psychology & Punjabi Castes (Gujjar, Kakazai, Rajput & Syed) | Indigneous Psychology in Urdu/Hindi