© تحریر: علؔی خان
پشتونوں کے معاشرتی نظریہ ء مساوات کے مطابق، تمام پشتون آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں اور ایک مشترکہ آباؤ اجداد کی نسل یا اولاد ہیں۔ یقیناً معاشرتی یا معاشی عدم مساوات (مثلاً امیر، غریب کا یا کمزور، طاقتور کے مابین فرق وغیرہ) ہر معاشرہ میں موجُود ہے، لیکن وہ فطرتی یا پیدائشی نہیں ہے، اور اپنی انفرادی کوشش و محنت سے ان کو تبدیل یا ان سے مکمّل طور پر چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پشتونوں میں سماجی درجہ بندی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور پشتون ایک دُوسرے کے ساتھ اپنے تنازعات یا یکجہتی کی حدود کا تعیّن معاشرتی قربت یا فاصلے کی بُنیاد پر کرتے ہیں۔ مثلاً اگر دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو پشتون اس فریق کا ساتھ دینا ضروری یا بہتر سمجھتے ہیں جو کہ ان کے ساتھ معاشرتی طور پر زیادہ قریب ہو یا دونوں کے قریبی مشترکہ سرپرست ہوں جیسا کہ کاکازئی ترکلانیوں نے جو کہ خود سڑبن کی اولاد میں سے ہیں، باجوڑ کو فتح کرنے کے لیے، دلزاک کے خلاف یوسف زئیوں کا ساتھ دیا کیونکہ یوسف زئی بھی سڑبن کی اولاد میں سے ہیں۔
وہ پشتون جو مربوط علاقوں ( مثلاً قبائلی علاقہ جات) میں رہتے ہیں اور اپنے تنازعات یا یکجہتی، یا نمائندگی کے لیے ایک مشترکہ پالیسی بنانے اور اسے نافذ کرنے کے اہل ہیں، ان علاقوں میں بھی ایک یا کئی با اثر مشر یا مشران ہونے کہ باوجُود ، پشتونوں کے معاشرتی نظریہ ء مساوات کے رُو سے قبیلے یا قبیلوں کے تمام اہم فیصلے جرگے (جس میں روایتی طور پر کوئی صدر یا سربراہ نہیں ہوتا البتہ باہمی رضا مندی سے نامزد کردہ کسی قبیلے کا یا فریق کا نمائندہ یا نمائندگان ہو سکتے ہیں) کے ذریعے ہی طے کیے جاتے ہیں جس میں ہر آزاد اور تجربہ کار پشتون مکمّل آزادی کے ساتھ اور برابری کی بُنیاد پر شرکت کرنے کا، اپنی رائے دینے کا اور فیصلہ دینے کا حق یا صوابدید رکھتا ہے۔
پشتونوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ہر پشتون جنگجو ، سیاستدان اور عالم ِ دین ہے, ہر پشتون کا گھر نہ صرف اس کےلیے ایک بڑ ا گھر، ایک حقیقی جاگیر اور قلعہ ہے، بلکہ اس کا گاؤں بھی اس کا قلعہ ہے ، اور قلعہ اس کا گاؤں ہے۔ ہر کنبہ اپنا من پسند کام (مثلاً کھیتی باڑی وغیرہ ) کرتا ہے۔ ہر قبیلہ ، اس کا جھگڑا ، اس کی دوستی، اس کی دُشمنی ۔۔۔ غرض کہ کوئی چیز بھی فراموش نہیں کی جاتی اور بہت کم قرضے ہیں جو بغیر وصولی کے چھوڑے جاتے ہیں۔
ان حالات میں پشتون ولی ہی ہے جو کہ پشتونوں کو ترتیب اور نظم و ضبط کی لڑی میں پروئے ہوئے ایک دُوسرے کے ساتھ برقرار اورمستحکم رکھتی ہے۔ اسی لیے پشتونوں میں سردار وغیرہ نہیں ہوتے۔