مجھے اپنے نام کے ساتھ ترکلانی، ماموند، کاکازئی، لوئی ماموند یا اپنی خیل کے نام میں سے کیا استعمال کرنا چاہیے؟
تحریر: علؔی خان
آپ اپنے نام کے ساتھ ‘ترکلانی’، ‘ماموند’، ‘کاکازئی’، ‘لوئی ماموند’ یا اپنی خیل کے نام میں سے کچھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ آپ کو اپنے نام کے ساتھ ‘ترکلانی’، ‘ماموند’، ‘کاکازئی’، ‘لوئی ماموند’ یا اپنی خیل کے نام میں سے کسی کو بھی استعمال کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتون قبیلہ کے ساتھ تعلّق رکھتے ہیں، جو کہ بُنیادی اور نسلی طور پر ترکلانی اور سڑبنی پشتون ہیں اور لغمان، افغانستان سے ہجرت کرکے دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔ اور یہ کہ کاکازئی پشتونوں کے والدِ محترم کا اصل نام محمود (ان کا مزارِ اقدس، موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں آج بھی موجود ہے۔) تھا جو کہ ماموند (مہمند نہیں) کے نام سے جانے جاتے تھے۔ چُونکہ ماموند کے دو بیٹے تھے، اور پشتو میں “کاکا” بڑے کے لیے اور “ووڑ” چھوٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے بڑے بیٹے کی اولاد کو کاکازئی اور چھوٹے بیٹے کی اولاد کو صرف ووڑ یا ووڑزئی کہا جاتا ہے۔ اسی مُناسبت سے کاکازئی کو لوئی ماموند( یعنی بڑا ماموند) اور ووڑ یا ووڑزئی کو وڑہ یا واڑہ ماموند (یعنی چھوٹا ماموند) بھی کہا جاتا ہے۔کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی بُنیادی خیلوں کے نام، محسود خیل، خلوزئی، محمود خیل، دولت خیل، عمرخیل، مغدود خیل، یوسف خیل ہیں ۔چُونکہ پشتون بُنیادی طور پر قبائلی ہیں، اس لیے ان میں ٹبّر، قومیں، قبیلے اور خیلیں تو ہیں، لیکن ذاتیں پاتیں وغیرہ نہیں ہیں۔ لٰہذا “کاکازئی” کوئی ذات نہیں ہے، بلکہ ایک قبیلہ ہے۔
یعنی اگر آپ فی الحقیقت کاکازئی ہیں تو پھر آپ بیک وقت سڑبنی ، ترکلانی، ماموند، کاکازئی اور لوئی ماموند تو ہیں ہی اور اگر آپ کا تعلّق کاکازئی کی کسی خیل سے ہے مثلاً محسود خیل، خلوزئی، محمود خیل، دولت خیل، عمرخیل، مغدود خیل یایوسف خیل سے ہے توپھر آپ وہ بھی ہیں۔
یقین جانیے کہ خواہ آپ خیبر پختونخواہ میں رہتے ہوں یا باہر، آپ کے نام کے ساتھ ‘خان ‘ یا آپ کے قبیلے، قوم یا خیل کے نام کا لکھّے یا نہ لکھّے ہونے سے کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔اور لوگ عموماً روزمرہ کے معاملات ،لین دین، تعلّقات وغیرہ میں یہ جاننے کی کبھی بھی کوشش نہیں کرتےکہ آپ کا کس قبیلہ ، قوم یا خیل کے ساتھ تعلّق ہے ۔ البتہ ان باتوں کا اس وقت ضرور خیال رکھا جاتا ہےجب ایک خاندان دُوسرے خاندان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ (مثلاً شادی، نکاح وغیرہ کے معاملات ) استوار کر رہا ہوتا ہے۔ ویسے بھی ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یاخیل وغیرہ لکھنے کا رحجان اتنا پُرانا نہیں ہے بلکہ یہ رحجان ہمیں قوم پرستی میں مُبتلا کرنے کی لہر اور مُہم کا ایک بُنیادی حصہ ہے۔اور قوم پرستی اسلام میں منع ہے۔
پختونوں کی ایک بہت بڑی تعداد آج بھی اپنے نام کے ساتھ’خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یا خیل وغیرہ کا نام استعمال نہیں کرتی۔ ماضی میں بھی کچھ پختون مرد حضرات ہی اپنے کے ساتھ ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یا خیل وغیرہ کا نام استعمال کرتے تھے لیکن آج کل تو پختون مرد حضرات کے ساتھ ساتھ پختون خواتین بھی ، خصوصاً شہروں میں مُقیم ، اپنے نام کے ساتھ ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یا خیل وغیرہ کا نام استعمال کر رہی ہیں۔
یاد رہے کہ ہر شخص، جو اپنے نام کے ساتھ “خان” لکھتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ پشتون بھی ہو، جیسے ہر پشتو والا پشتون نہیں ہے۔
مندرجہ بالا باتوں کے باوجُود اگرآپ پھر بھی اپنے نام کے ساتھ’ترکلانی’، ‘ماموند’، ‘کاکازئی’، ‘لوئی ماموند’ یا اپنی خیل کے نام کو استعمال کرنے پہ مصر ہیں تو سب سے مُستند طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے یہ معلوم کریں کہ آپ کے خاندان کی تاریخی دستاویزات (مثلاًنکاح نامہ، سفری دستاویزات، جائیداد کے کاغذات ، پیدائش یا موت کے سرٹیفیکیٹ وغیرہ ) کے قومیّت کے خانہ (اگر دستاویز میں وہ خانہ موجود ہے۔ اگر نہیں ہے تو یاد رکھیے بعض اوقات سائل رضاکارانہ طور پر بھی یہ معلومات متعلقہ دفتر میں کام کرنے والے کو فراہم کردیتے تھےجو کہ اس کو دستاویز میں کہیں لکھ کر ریکارڈ کا حصہ بنا دیتے تھے، اس لیے دستاویزکے ہر حصے کا احتیاط اور بغور مطالعہ کریں، شاید جو معلومات آپ ڈھونڈ رہے ہیں، وہ اسی دستاویز کے کسی اور حصہ میں مل جائے۔)میں آپ کے قوم، قبیلے یاخیل کے بارے میں کیا لکھّا ہوا ہے۔ اگرآپ کے والدین، الحمدللہ حیات ہیں تو آپ ان سے بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں، اگر خدانخواستہ حیات نہیں ہیں توآپ اپنے خاندان کے دیگر عزیز و اقارب اورمشران سے مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔
عموماً جو کسی کے قبیلے، قوم یا خیل کا نام اس کے خاندان میں استعمال ہوتا چلا آرہا ہو، وہی نام آگے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کے خاندان میں ترکلانی مستعمل ہے، اگرچہ وہ ایسوزئی یا اسمٰعیل زئی ترکلانی کی اولاد میں سے کیوں نہ ہوں، توآگے بھی محض ترکلانی ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ اور خیبر پختونخواہ سے باہررہنے والے، شہری علاقوں میں مُقیم کاکازئی ،زیادہ تر کاکازئی ہی استعمال کرتے ہیں۔ باجوڑ میں مُقیم کاکازئی پشتون، مع واڑہ ماموند کے، اپنے ناموں کے، جو استعمال کرنا چاہتے ہیں ، وہ صرف ‘ماموند’ استعمال کرتے ہیں اور دیگر کاکازئی استعمال کرتے ہیں اور کچھ اپنی خیل (مثلاً خلوزئی، مسعود یا محسود خیل وغیرہ) کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں مثلاً باجوڑ میں،ایک تو کاکازئی(لوئی ماموند) کئی صدیوں سے مقیم ہیں اور دُوسرا یہ کہ نہ صرف ، ماموند نام کی یہاں ایک وادی یا علاقہ ہے(جس کا قدیم نام وتلائی کی وادی تھا اور اسی میں درہ کاکازئی تھا یا ہے) جو کہ کاکازئی پشتونوں کے والد، ماموند (ان کا مزارِ اقدس، موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں آج بھی موجود ہے۔) کے نام پر ہے، بلکہ ‘لوئی ماموند’ اور ‘واڑہ ماموند’ کی دو تحصیلیں بھی ہیں۔یعنی کاکازئی (لوئی ماموند) پشتون نہ صر ف یہاں خود موجود ہیں بلکہ ان کے اپنے اور ان کے چھوٹے بھائی، واڑہ ماموند، کے اپنے ناموں پر ان کے علاقے بھی موجود ہیں۔ اس لیے باجوڑ کے رہنے والے کاکازئی (لوئی ماموند) یا واڑہ ماموند،اپنے اپنے خاندان کے رواج کے مُطابق، اگر ان کے خاندان میں اپنے قبیلے، قوم یا خیل کا نام استعمال کرنے کا رواج ہے، کاکازئی، ماموند یا اپنی خیل وغیرہ کا نام استعمال کرتے ہیں۔اور بہت سارے ایسے ہیں جواپنے والدین کی طرف سے ان کو دیے گئے پیدائشی نام پر اکتفاء کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ کچھ بھی استعمال نہیں کرتے۔
البتہ اگر آپ مندرجہ بالا معلومات کو جاننے کے باوجُود “ملک”، “شیخ’، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا صرف”زئی” وغیرہ اپنے نام کے استعمال کرنا چاہتے ہیں، جو کہ کاکازئی (لوئی ماموند) ہرگز ہرگز نہیں ہیں، اور آپ کا تعلّق فی الحقیقت کاکازئی قبیلہ سے ہے، تو اس صُورت میں “خان” یا “کاکازئی” استعمال کرنا کہیں زیادہ ضروری، منطقی اور احسن ہے۔ کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے، کہ آپ کو، بحیثیت ایک کاکازئی پشتون کے، “ملک”، “شیخ”، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا صرف “زئی” وغیرہ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کرنے چاہیے اور اپنے اہل وعیّال کو بھی منع کرنا چاہیے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یاخیل وغیرہ کا نام اپنے نا م کے ساتھ لکھنے کا رحجان اتنا پُرانا نہیں ہے بلکہ یہ رحجان ہمیں قوم پرستی میں مُبتلا کرنے کی لہر اور مُہم کا ایک بُنیادی حصہ ہے۔اور قوم پرستی اسلام میں منع ہے۔ تو آج کل کےکاکازئی (لوئی ماموند) پشتون نوجوان خواتین و حضرات(دیگر نوجوانوں کی طرح)، خواہ، وہ باجوڑ کے ہوں، یا خیبرپختونخواہ کے ہوں، یاکسی اور علاقے کے، چاہے ان کے شناختی، تعلیمی یا دیگر دستاویزات (شناختی کارڈ، پاسپورٹ، اسٹوڈنٹ آئی ڈی کارڈ، اسکول، کالج، یونیورسٹی کی رجسٹریشن وغیرہ) پر محض ان کا اصل پیدائشی نام بغیر ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یا خیل وغیرہ کے نام کے لکھّا ہو ا ہو،وہ اپنے سوشل میڈیا (فیس بُک، انسٹاگرام، واٹس ایپ ، ٹوئیٹر وغیرہ )کی آئی ڈی پر کم از کم اپنے نام کے ساتھ ‘خان’ یا اپنی قوم، قبیلے یاخیل وغیرہ کا نام ضرور لکھنا پسند کرتے ہیں۔
تمام مسلمانوں بشمول کاکازئی پشتونوں کو ہرقسم کی شخصّیت پرستی ،گروہ بندی، قوم پرستی، خُودنُمائی،فخر، غرور، تکبّر ، بُری عادات، بُری صحبت، بُرے اخلاق وغیرہ سےہر حال میں دُور اور مکمّل اجتناب کرنا چاہیے۔ ہر مسلمان اور کاکازئی پشتون کا حتمی مقصد بس ایک مثالی مُسلمان بننا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو صراطِ مُستقیم پر چلنے کی اور اپنا پسندیدہ اور مثالی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
© www.kakazai.com